اُن کا ہوا تو خاص حوالے میں آ گیا

اُن کا ہوا تو خاص حوالے میں آ گیا

تاریکیوں سے بچ کے اُجالے میں آ گیا


ستّر کے واسطے جو کفایت کرے ، وہ دودھ

اُن کی نظر سے ایک پیالے میں آ گیا


تب روشنی بھی چاند کی بڑھتی چلی گئی

جب سے وہ تیرے نُور کے ہالے میں آ گیا


ذکرِ رسولِ پاک جو صدیوں پہ ہے مُحیط

کیسے یہ مان لُوں کہ مقالے میں آ گیا


مُژدہ سُنا جو آپ سے ، مزدور کِھل اُٹھا

آنسو خوشی کا ہاتھ کے چھالے میں آ گیا


اُترا جو بارِ اِثم تو ہلکا ہوا بدن

جیسے نکل کے رُوئی کے گالے میں آ گیا


گریہ کُناں کا اُس نے مُقدّر بدل دیا

آنسو جو آدھی رات کے نالے میں آ گیا


اُس کو نکلنا واں سے گوارا ہے کب جلیل

جو بھی نگاہِ یار کے تالے میں آ گیا

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

مِرا جہان بھی تُو، تو ہی عاقبت میری

مدینہ شہر نہیں ہے، مری تمنا ہے

جی رہا ہوں میں اُس دیار سے دُور

بادہء عشق نبی پی کے بھی پیاسیں نہ گئیں

آپ کی جلوہ گری ہوتی نہ گر منظورِ حق

تو کجا من کجا

نہیں ہے منگتا کوئی بھی ایسا کہ جس

سبز گنبد کے مناظر دور تک

کیا کیا نہ ملا رابطہِ سرورِ دیں ؐ سے

میں ریاض نبی میں بیٹھا ہوں