مِرا جہان بھی تُو، تو ہی عاقبت میری

مِرا جہان بھی تُو، تو ہی عاقبت میری

تِرے بغیر نہیں کچھ بھی حیثیت میری


مِرا جھکا ہوا سر بھی بلند ہے کتنا

تِرا نشان کف پا ہے سلطنت میری


بس ایک بوند تِری ، میرے علم کا دریا

بس ایک اسمِ گرامی تِرا لغت میری


تِرے خیال میں رہتا ہے گم وجود مِرا

مقام کی نہیں محتاج شہریت میری


جو وقت صرف ہوا اپنے لیے وہی گھاٹا

جو سانس خرچ ہو تجھ پر وہی بچت میری


جو تجھ کو دیکھ کر آئے میں وہ نظر دیکھوں

جدھر سے تیری صدا آئے وہ جہت میری


میں کیا کروں تِری نسبت پہ ناز ہے مجھ کو

مِرے نیاز کا حصہ ہے تمکنت میری


مظفر اُن کے غلاموں کا بھی غلام ہوں میں

جہاں میں کیوں نہ بڑھے قدرو منزلت میری

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- نورِ ازل

دیگر کلام

شاہِ ہُدا ہیں شاہِ مدینہ

غم ہے افتاد پرانی میری

اپنی اطاعت اپنی محبت مجھے بھی دو

یاد کردے رہو زُلف محبوب دی

ذاتِ والا پہ بار بار دُرود

کعبے کی جبیں خم ہے بتعظیمِ پیمبر

بیاں تم سے کروں کس واسطے میں اپنی حالت کا

وقتِ آخر حضورؐ آ جانا

اُسی نے نقش جمائے ہیں لالہ زاروں پر

غماں نے لا لیا ہر طرف ڈیرا یا رسول اللہ