اُسی نے نقش جمائے ہیں لالہ زاروں پر
اُسی کے نُور کی مہریں ہیں چاند تاروں پر
اُسی سے پھُول کھلے سطحِ ریگ پر کیا کیا
بہار ٹُوٹ کے آئی ہے ریگ زاروں پر
درُود اُس پہ گُلوں کا، سلام کلیوں کا
وہ جِس کے حُسن کا احسان ہے بہاروں پر
مَیں ارضِ طیبہ ازل سے ہُوں طالبِ دیدار
مِری نگاہ کا حق ہے تیرے نظاروں پر
کبھی جو وحی کے انوار سے چمکتے تھے
سلام نوعِ بشر کا ہو، اُن مناروں پر
بہت ادب سے بہت احتیاط سے چلنا
کبھی چلو جو مدینے کی رہگزاروں پر
مِرا نظامِ طبیعت، مرا اصولِ حیات
نظر جمائے ہُوئے ہیں ترے اشاروں پر
تبھی تھمیں گے مرے اشک جب وہ چاہیں گے
کہاں ہے میرا تصرّف اِن آبشاروں پر
اُسی کا فیضِ نظر ہیں یہ عظمتیں عاصؔی
کہ بادشاہوں کا دھوکا ہے خاکساروں پر
شاعر کا نام :- عاصی کرنالی
کتاب کا نام :- حرف شیریں