اسمِ ذاتِ الٰہی سے ہے ابتدا

اسمِ ذاتِ الٰہی سے ہے ابتدا ، انتہا میری آقا ہےصلِّ علیٰ

اِس کرم کے میں قابل کہاں تھا شہا ! یہ جو لب پر سجایا ہےصلِّ علیٰ


میں سراپا تشکّر ہوں احسان پر ' اتنا جود و کرم مجھ سے انسان پر

کرکےسویا ہوں آقا میں تیری ثنا،آنکھ کھولی تو لب پر ہےصلِّ علیٰ


میں نے دل میں بسائی تری یاد ہے ، اِک نَفَس بھی ہو غافل تو اُفتاد ہے

جب بھی سُنتا ہوں نامِ مُقدس ترا ، دل محبت سے کہتا ہےصلِّ علیٰ


ایک صدیوں پرانی کہانی یہی ، عشق والوں کی مُحکم نشانی یہی

تیرے عُشّاق جس وقت کھولیں زباں ، بس لبوں پر مچلتا ہےصلِّ علیٰ


قلب وہ جو ہوئے وقفِ سرکار ہیں ، واسطے اُن کے اموال بے کار ہیں

ہو گُزر اُن میں کیسے بھلا غیر کا ، جن کی دھڑکن میں رہتا ہےصلِّ علیٰ


وہ جو ہیں بندگانِ ہوا و ہوس ، اُن کی سوچوں پہ چھائی ہے دولت ہی بس

دو جہاں میں ہوئے ہیں وہی سُرخرو ، جن کا واحد وظیفہ ہےصلِّ علیٰ


زندگی میں رہی جن سے نسبت مری ،حشر میں بھی کریں گے شفاعت وہی

اُمّتی پر جہاں کوئی مشکل پڑے ، بس وہاں کام آتا ہےصلِّ علیٰ


چاند ، سُورج سے لے کر ستاروں تلک ، گُلشن و گُلسِتاں سے بہاروں تلک

چار سُو ،جا بجا اے مرے دلرُبا ! تیرے چہرے کا جلوہ ہےصلِّ علیٰ


اُن کی توصیف میں ہم کہیں کیا بھلا، رحمتِ عالمیں جن کی شانِ عُلیٰ

ہم جلیل آج کہتے ہیں یہ برملا ، ایک رحمت کا دریا ہے صلِّ علیٰ

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

بشر کی حرمت حضورؐ سے ہے

ڈوبتی ناؤ کو رحمت کا سہارا دے دے

’وَالضُحٰی پر گُفتگُو ہونے لگی

میرے ہر کیف کا سامان رسولِ عربیؐ

ربِ کعبہ نے کر دی عطا روشنی

کونین میں ہے سیـدِ ابرار کی رونق

دیکھ لی رب کے یار کی صورت

مدحتوں کا قرینہ ملا آپ سے

ہم اس ادا سے شہرِ سرکار تک گئے ہیں

انمول خزانوں کا خزینہ ہے مدینہ