چَھٹے زمانے سے غم کے سائے جو آپ آئے

چَھٹے زمانے سے غم کے سائے جو آپ آئے

بُجھے بُجھے لوگ مُسکرائے جو آپ آئے


خوشی زمانے کی دیدنی تھی ،وہ کیا سماں تھا

ترانے خوشیوں کے سب نے گائے جو آپ آئے


یہ ماہ و خورشید آج بے حد چمک رہے ہیں

فلک پہ تارے بھی جگمگائے جو آپ آئے


بُتانِ کعبہ ، غرور و نخوت ، سبھی تھے ٹُوٹے

خُدا کے دُشمن تھے بوکھلائے جو آپ آئے


خزاں نے گُلشن اُجاڑ ڈالے تھے کُل جہاں کے

خوشا ! کہ پِھر سے وہ لہلہائے جو آپ آئے


جنہیں زمانے کی چیرہ دستی گِرا رہی تھی

وہ پھر کبھی بھی نہ ڈگمگائے جو آپ آئے


نبی و مُرسل ،حضور ! اقصٰی میں آ کے پہلے

کھڑے تھے سارے صفیں بنائے جو آپ آئے


غرور و نخوت بھرا ہوا تھا وہ جن سروں میں

خُدا کے در پر سبھی جُھکائے جو آپ آئے


زمیں کے ذرے زمیں سے اُٹھ کر فلک پہ پہنچے

ستارے بن کر وہ جِھلمِلائے جو آپ آئے


جلیل صحرائے لق و دق میں جو جل رہے تھے

ملے اُنہیں بھی رِدا کے سائے جو آپ آئے

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

ترے کرم کا خدایا کوئی حساب نہیں

مرے حضُورؐ اُس اوجِ کمال تک پہونچے

بند کر ساقیا نہ ابھی میکدہ میں ہوں امیدوار آخری آخری

جتنی دامنِ زیست میں دولتیں ہیں

بحمد اللہ میرے دل وچ نبی مختار وسدے نے

قرینے میں ہر اک نِظام آگیا ہے

کیہڑا ہور تیرے وانگوں آقا لج پال دا

وہ واعظ و خطیب وہ اہلِ قلم غلط

محمد ہر دو عالم دا سہارا

جب تلک یہ چاند تارے جِھلمِلاتے جائیں گے