جتنی دامنِ زیست میں دولتیں ہیں

(سانیٹٓ)جتنی دامنِ زیست میں دولتیں ہیں

جتنی جودتیں ہیں ، جتنی نُدرتیں ہیں


حسن و خیر کی جتنی بھی صورتیں ہیں

اُن کے خلقِ عظیم کی وسعتیں ہیں


سازِ ہست کے جتنے آہنگ ٹھہرے

استقبال کے دیکھے سامان جتنے


اوجِ فکر کے پائے امکان جتنے

اُن کے اُسوہ پا ک کے رنگ ٹھرے


اُن کے حصّے میں خیرِ کثیر آئی

اعتبارِ وجود ہے نام اُن کا


عہد ساز پیام و نظام اُن کا

اُن کےساتھ کتاب منیرآئی


دُولھا کون حیات برات کا ہے

ضامن حشر میں کون نجات کا ہے

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

جو کسی کسی کا نصیب ہے

لطفِ حق عام ہوا ہادی و سرور آیا

بڑی دیر کی ہے تمنا، الہٰی مجھے بھی دکھا دے دیارِ مدینہ

تیرے تے سلام سانوں تار دین والیا

سارے دُکھاں دی تے درداں دی دوا ملدی اے

بس کیف ان کی یاد کا دل میں اتر گیا

رہِ طیبہ میں دیوانہ

وچھوڑے دے میں صدمے روز

ہو نگاہ کرم کملی والے تیرے بن کوئی میرا نہیں ہے

بے حسی راہ نما ٹھہری ہے