مُقدّر گر ہوا یاور مدینے ہم بھی جائیں گے

مُقدّر گر ہوا یاور مدینے ہم بھی جائیں گے

نظر کی تشنگی ساری وہیں جا کر مٹائیں گے


دلِ نازک میں اب ہمّت کہاں ہے ہجر و فرقت کی

ملے اُنکی اجازت تو وہیں کُٹیا بسائیں گے


بُلاوا آ گیا تیرا مدینے جا رہا ہے تو

مرے احباب یہ اِک دن مُجھے مُژدہ سُنائیں گے


یہ آنکھیں بھیگ جائیں گی،ترے روضے کو تکتے ہی

خوشی وہ دیدنی ہوگی جو آنسو جِھلملائیں گے


ہمیشہ غمزدوں کی جو کیا کرتے ہیں دلجوئی

تو رو کے ہم بھی حال اپنا اُنہی کو جا سُنائیں گے


عمل کوئی نہیں ہے لائقِ بخشش مرا ،لیکن

یقیں ہے مُجھ کو دوزخ سے مرے آقاْ بچائیں گے


کریں گے رشک ان کی قسمتوں پر لوگ محشر میں

لِوائے حمد کے نیچے، جنہیں سرکار لائیں گے


درودِ پاک کے حلقے جہاں سجتے رہے دائم

تو بام و در اُسی گھر کے ہمیشہ جگمگائیں گے


درود اُن پر جلیل اپنی ،ہے پُونجی زندگانی کی

یہ انوارِِ مُحبّت ہی لحد میں کام آئیں گے

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

ماه مبین و خوش ادا صل علی محمد

جب بھی اٹھ جاتے ہیں رحمت لیے ابروئے نبی

رحمت حضور کی ہے کرم کردگار کے

انبیاء کی کہکشاں ہے مصطفیٰؐ صرف ایک ہے

چشمِ دل چاہے جو اَنوار سے ربط

جو بشیرؐ ہے جو نذیرؐ ہے

اے محسنِ انساں تری سیرت کے میں صدقے

مدنی کرم کماوَن آگئے

یا محمد دو جہاں میں آپ سا کوئی نہیں

مُنہ فق ہے جس کے سامنے ماہِ تمام کا