رحمت حضور کی ہے کرم کردگار کے

رحمت حضور کی ہے کرم کردگار کے

مسکے ہوئے ہیں پھول چمن میں بہار کے


جچتی نہیں نگاہ میں رنگینی جناں

آئے ہیں کوئے یار میں دو دن گزار کے


سب کچھ فدا ہے سرورِ عالم کے نام پر

ہیں کیا ہی جانثار یہ دیوانے یار کے


کرتا نہیں میں آرزوئے وصل اس لئے

ہوں لوٹتا مزے میں سدا انتظار کے


اس سے زیادہ کون بھلا خوش نصیب ہے

موت آئے جس کو دوستو کوچے میں یار کے


جو بھی در حضور پہ جاتے ہیں خستہ حال

آتے ہیں وہ بھی اپنے مقدر سنوار کے


یہ بے قراریاں ہیں عجب بے قراریاں

ان بے قراریوں میں مزے ہیں قرار کے


ہم ان کے در سے دوستو اٹھیں تو کس لئے

آئے ہیں ہم جہاں کی ہر اک چیز وار کے


آؤ میرے حضور کی محفل میں عاصیو

چھائے ہیں ابر رحمت پروردگار کے


آتے ہیں بالیقین وہ امداد کے لئے

دیکھے خلوص سے کوئی ان کو پکار کے


نعتِ رسول پاک سنانا اے دوستو

جانے لگو جو مجھ کو لحد میں اتار کے


نعت نبی کا خوب نیازی صلہ ملا

بوسے فرشتے لیتے ہیں میرے مزار کے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

اگر قسمت سے میں ان کی گلی میں خاک ہو جاتا

جسے عشق شاہ رسولاں نہیں ہے

من موہ لیا عالم مسارے دا محبُوب خُدا دیاں گلّاں نیں

ہادئ و رہبر و امام تم پہ درود اور سلام

گناہوں کے مریضوں کا شفا خانہ ہے یہ روضہ

سب کتابوں میں قرآن سب سے الگ

ان کی یادوں کا دیا دل میں جلائے رکھنا

مرے حضُورؐ اُس اوجِ کمال تک پہونچے

میرے اشک ورھدے چلے جا رئے نے

دریائے فنا سے ہے اک روز گزر جانا