حقیقت میں ہو سجدہ جبہ سائی کا بہانہ ہو

حقیقت میں ہو سجدہ جبہ سائی کا بہانہ ہو

الہی میرا سر ہو اور ان کا آستانہ ہو


تمنا ہے کہ میری روح جب تن سے روانہ ہو

دم آنکھوں میں ہو اور پیش نظر وہ آستانہ ہو


زباں جب تک ہے ، اور جب تک زباں میں تاب گویائی

تری باتیں ہوں تیرا ذکر ہو تیرا فسانہ ہو


مری آنکھیں بنیں آئینہ حسن روئے صابر کا

دل صد چاک ان کی عنبریں زلفوں کا شانہ ہو


بلا اس کی ڈرے پھر گرمئی خورشید محشر سے

ترے لطف وکرم کا جس کے سر پہ شامیانہ ہو


انہیں تو مشق تیر ناز کی دھن ہے وہ کیا جانیں

کسی کی جان جائے یا کسی کا دل نشانہ ہو


نہ پوچھ اس عندلیب سوختہ ساماں کی حالت کو

نفس کے سامنے برباد جس کا آشیانہ ہو


سر بیدم ازل کے دن سے ہے وقف جبیں سائی

کسی کا نقش پا ہو اور کوئی آستانہ ہو

شاعر کا نام :- بیدم شاہ وارثی

کتاب کا نام :- کلام بیدم

دیگر کلام

دل دہل جاتا ہے میں جب بھی کبھی سوچتا ہوں

حاصلِ دو جہاں نظام الدّینؒ

جو یقیں زاد ہے جو صابر ہے

مظلومِ کربلا کی شہادت مرا سلام

دُختر مصطفی، سیّدہ فاطمہ

جس نے دکھایا طیبہ و قبلہ تم ہی تو ہو

علم کے شہر کا دروازہ

مَظْہَرِعظمتِ غفّار ہیں غوثِ اعظم

حیدرؓ و زہراؓ کا ثانی کون ہے

دُنیا بھلی سے بھی ہے بھلی داتا