حضرت بلالؓ حبشی جو صحرا کی دُھول تھے

حضرت بلالؓ حبشی جو صحرا کی دُھول تھے

جب بارگاہِ ناز میں پہنچے تو پھول تھے


وہ ہوں غلامِ مصطفیؐ یہ شوق تھا انہیںؓ

عشقِ محمدیؐ کا بڑا ذوق تھا انہیںؓ


ارض و سماء میں شہرہ تھا اُنؓ کی اذان کا

تھا لاڈلا غلام ، شہِ دوجہانؐ کا


جب لیتے نامِ نامی خدا کے حبیبؐ کا

نظریں اُٹھا کے دیکھتے جلوہ قریب کا


بعد از وصال آقاؐ و سرکارِؐ دوجہاںؐ

غمناک ہو کے چھوڑ دی اُس وقت سے اذاں


بے چین و مضطرب تھے فراقِ رسولؐ میں

کانٹا چبھا تھا ہجر کا نرگس کے پھول میں


شیدا تھا جان و دل سے وہ عالی جنابؐ کا

پروانہ تھا وہ شمعِ رسالتمآبؐ کا


بولے کہ لٹ گئی ہے متاعِ حیات بھی

قسمت نے چھین لی ہے مری کائنات بھی


ممکن نہیں ہے جلوئہ سرکارؐ کے بغیر

دھڑکے گا کیسے دل مرا دلدار کے بغیر


اب میں رہوں مدینے میں کس کام کے لئے

دیجے مجھے بھی اِذنِ سفر شام کے لئے


صدیقؓ چاہتے تھے رکھیں آپؓ کو قریں

فرمایا بس بلالؓ نہیں جانا اب کہیں


کی عرض اے نبیء مکرمؐ کے یارِ غار

مانا کہ مجھ پہ آپؓ کے احساں ہیں بے شمار


اپنے لئے جو مجھ کو خریدا ہے آپؓ نے

بے شک پھر اپنے قول سے انکار کیجئے


گر آپؓ نے خریدا ہے اللہ کے لئے

مجھ کو خدا کے واسطے پھر چھوڑ دیجئے


دے دی ابوبکرؓ نے اجازت بلالؓ کو

پھر کر دیا جہاد پہ رخصت بلالؓ کو


بعد از جہادِ شام ، وہیں پر کیا قیام

حد درجہ سوگوار تھے اک روز یہ غلام


روتے تھے کر کے یاد مدینہ کے صبح و شام

جب تک رہے ہیں دُور مدینہ سے یہ غلام


سوئے تو جاگ اُٹھا مقدر بلالؓ کا

دیدار ہوا شاہؐ کے حسن و جمال کا


آئے حضورؐ خواب میں ، فرمایا اے بلالؓ

مجھ کو کیا ہے تیری جفائوں نے پُر ملال


آتے نہیں ہو مجھ سے ملاقات کے لئے

یہ کیسی چاہتیں ہیں مریؐ ذات کے لئے


کھلتے ہی آنکھ عازمِ کوئے نبیؐ ہوئے

رُخ فکر کے ، خیال کے ، سوئے نبیؐ ہوئے


حاضر ہوئے حضورؐ کے روضے پہ اشکبار

روئے لپٹ کے قبرِ منور سے زار و زار


پہنچی خبر مدینہ میں لوٹ آئے ہیں بلالؓ

ملنے کو آئے لوگ اذاں کا کیا سوال


حضرت بلالؓ نے کیا انکار بے شمار

اصحابِ مصطفیؐ کا تھا اصرار بار بار


اصحاب نے حسنینؓ کریمین سے کہا

دیں گے اذاں بلالؓ اگر آپؓ نے کہا


حسنینؓ کو بھی شوقِ اذانِ بلالؓ تھا

اُنؓ کو بھی ذوقِ صوتِ جمیل و جمال تھا


حسنینؓ کے تقاضے پہ راضی ہوئے بلالؓ

رکھتے نہ تھے یہاں پہ وہ انکار کی مجال


مسجد کی چھت سے گونج اُٹھی پھر وہی اذاں

دُہرائی پھر سے دورِ نبوت کی داستاں


جب آیا نامِ نامی اذاں میں حضورؐ کا

ساماں نہیں تھا سامنے دل کے سرور کا


نظریں اُٹھائیں عادتاً دیدار کے لئے

جلوہ نہیں تھا عشقِ طلبگار کے لئے


بے چین اشکبار ہوئے ہوش کھو دیئے

مسجد کی چھت پہ گر گئے بے ہوش ہو گئے


سن کر اذان گھر سے نکل آئیں پردہ دار

پیرو جوان دوڑے کہ لوٹ آئے ذی وقار


یہ سوچ کر کے آئے گا دل کو مرے قرار

پہنچا ہر ایک مسجدِ نبوی میں اشکبار


کھل جائیں ایک پل کو مقدر نگاہ کے

جلوے ملیں اے کاش ہمیں آج شاہؐ کے


صد حیف چشمِ شوق ہوئی مثلِ ریگزار

دیکھا نہ آپؓ کو تو ہوئے سب ہی اشکبار


ہر ذہن بے سکون تھا ، دل کو نہ تھا ثبات

اُس روز خوب روئی مدینے میں کائنات

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ خلد

دیگر کلام

تیری عظمت کا ہر سمت ڈنکا بجا

آفتابِ روئے احمدؐ کی درخشندہ کرن

افق پہ شام کا منظر لہو لہو کیوں ہے

صبا کا سینہ بنے سفینہ ذرا طبیعت رواں دواں ہو

اتنا عظیم اور کوئی سانحہ نہیں

ہو چکا تھا فیصلہ یہ کا تبِ تقدیر کا

اجمیر بُلایا مجھے اجمیر بُلایا

بہتری جس پہ کرے فخر وہ بہتر صدیق

وجہ تسکینِ دل و جان حسینؑ ابنِ علی ؑ

آگ سی دل میں لگی آنکھ سے چھلکا پانی