اک اک ولی رہینِ کرم غوثِ پاکؒ کا

اک اک ولی رہینِ کرم غوثِ پاکؒ کا

ہے سب کی گردنوں پہ قدم غوثِ پاکؒ کا


منکر نکیر کا ہمیں خدشہ ذرا نہیں

پاتے رہے ہیں درس جو ہم غوثِ پاکؒ کا


اللہ آج دینے پہ آیا ہے مانگ لو

کھُلتا ہے آج بابِ کرم غوثِ پاکؒ کا


اُمّت کے حق میں اُن کی سفارش، نجات ہے

کرتے ہیں پاس شاہِؐ اُمم، غوثِ پاکؒ کا


معراج اُس کی رفعتِ کون و مکاں نہیں

ہو گا بُلند اور عَلَم غوثِ پاکؒ کا


مجھ کو نہیں ہے نقشِ سلیماں کی آرزو

ہے لوحِ دل پہ نقش قدم غوثِ پاکؒ کا


ہر مُشرکانہ سوچ کو شرمندگی ہُوئی

توحید پر چلا وہ قلم غوثِ پاکؒ کا


موقوف صرف نوعِ بشر پر نہیں یہ بات

بھرتے ہیں اہلِ قُدس بھی دَم غوثِ پاکؒ کا


کچھ غم نہیں مجھے ، جو زمانہ خلاف ہے

ہے میرے سَر پہ دستِ کرم غوثِ پاکؒ کا


طے ہو نصیؔر جادہء ہستی کا یُوں سفر

پے رَو رہُوں قدم بہ قدم غوثِ پاکؒ کا ۔۔

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- فیضِ نسبت

دیگر کلام

اب تک ہے اگر دُنیا باقی

نہ خوف ہے نہ کوئی اضطراب مولا علی

یہ کس نے دہن گنہ میں لگام ڈالی ہے

ہاہو وچ ہو پیا دسدا ایہہ گلاں نے اسرار دیاں

ہے رتبہ اس لیے کونین میں عصمت کا عفت کا

قرآن کی تفسیر حسین ؑ ابنِ علی ؑ ہیں

سن سن مرا پیغام سن

کہیا حُسن حُسین دا پچھنا ایں

قدم قدم پر چراغ ایسے جلا گئی ہے علیؑ کی بیٹی

جنابِ گنج شکرؒ کی زباں علاء الدین