مَیں تو جاؤں گی واری مَیں اُڑاؤں گی آج گُلال

مَیں تو جاؤں گی واری مَیں اُڑاؤں گی آج گُلال

مورے انگناں میں آئے مُحیِؒ الدِّیں جیلانی لج پال


آوو ساری سکھیاں رل مل گائیں پریم کے گیت

دن ہے میل ملن کا ، کھیلیں سیّاں کے دُوار دَھمال


اُترے چاند کی صورت مورے انگناں میں غوثِؒ جلی

مَیں تو کھیلوں گی ہولی ، آئے گھر زہرا کے لال


جن کو کہتی ہے جگ میں دُنیا عبدالقادر میراںؒ

میں تُو اُجری پری تھی ، موہے کر گئے آ کے نہال


تورا نام جپوں گی ، چاہے کِرپا سے دیکھ نہ دیکھ

توری بَن کے رہوں گی ، صدقہ جھولی میں ڈال نہ ڈال


جَیں سا اور نہ کوئی تُو ہے بس وہ غوثُ الاغواث

تھارو نام جپت ہیں سب پیر و فقیر و ابدال


موری میلی چُنریا، سَکھیاں پہنت اُجلے جورے

میں تو پھرت ہُوں نِردھن اور گٹھڑی میں سب کی ہے لال


جب سے دیس کو چھورا ، بستی گلیاں ہی اُجر گئیں

سیّاں لوٹ بھی آوو ، اب تو بیت گئے ہیں کئو سال


اُن کی دین دَیا ہے ، مورا دان دھیج یہ سگرا

مَیں تو کچھ بھی نہیں تھی اُوہی کر گئے ہیں مالا مال


پیتم کا سے کہوں میں تُم بِن دُکھ بپتا یہ اپنی

آئی دُوار پہ تھارے ، اب تو کہہ کے جاؤں گی حال


ساچی بات سُنو تُم ، من کا پنچ تَنی ہے یہ نصیؔر

اُو کا دِین دھرم ہے ، زہرا و محمدؐ کی آل

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- فیضِ نسبت

دیگر کلام

مظلومؑ کے ہاتھوں پہ جو دم توڑ رہا ہے

کھلا میرے دِل کی کلی غوثِ اعظم

نگاہِ لطف سوئے خادمانِ اولیاء گاہے

میں آپ کا دیوانہ ہوں محبوب الہی

خواجہ تری خاک آستانہ

تیری ہر اک ادا علی اکبر

بہار باغ جنت ہے بہار روضئہ صابر

علیؑ علیؑ عرفان کا در ہے ‘ علی ؑ گویا ولی گر ہے

منگتوں پہ نظر ہو گنج شکر آباد رہے تیرا پاکپتن

شکستہ دل کی بھی لینا خبر غریب نواز