قدم کی جا جبیں رکھ کر جو اس کوچہ میں آئے گا

قدم کی جا جبیں رکھ کر جو اس کوچہ میں آئے گا

طلب سے بھی زیادہ اپنی جھولی بھر کے جائے گا


یہ دربارِ قلندر ہے سخاوت کا سمندر ہے

یہاں سے لوٹ کر خالی نہ جاتا ہے نہ جائے گا


یہ نوبت ہاتھ پھیلانے کی آنے ہی نہیں دیتے

سخاوت کا فرشتہ آنکھ ان سے کیا ملائے گا


گرا دو خود کو اس در پر اگر کچھ مرتبہ چاہو

قلندر جب اُٹھائے گا بہت اونچا اُٹھائے گا


اُدھر ہے کوہ کا دامن اِدھر دامن قلندر کا

یقیں ہے د ل ثنا ان کی ، پہاڑی میں سنائے گا


کرم کر دے خدایا آج کی شب وہ نظر آئیں

کہ یہ لمحہ یہ شب کا نور پھر کب ہاتھ آئے گا


محبّ ہیں منتظر محبوب کب جلوہ دکھاتا ہے

ادیبؔ اپنا مقدّر ساتھ ان کے جگمگائے گا

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

دیگر کلام

حرم سے قافلہ نکلا ہے کربلا کی طرف

دَرِ زہراؓ کا ہو جتنا بھی ادب تھوڑا ہے

خانۂ کعبہ پہ میری جب پڑی میری نظر

حیدرؑ حیدرؑ یا حیدرؑ

جب اندھیروں کے سبب کُچھ بھی نہیں تھا روشن

مَیں تو جاؤں گی واری مَیں اُڑاؤں گی آج گُلال

زبان حال سے کہتی ہے کربلا کی زمیں

بَدہ دستِ یقیں اے دِل بدستِ شاہِ جیلانی

نصیب تھا علی اصغر کا یار بچپن میں

کس کے دل کی ہیں دُعا حضرتِ سچل سرمست