شاہِ بغداد ! سدا بول ہے بالا تیرا
کیوں نہ ہو ، صاحبِ معراج ہے بابا تیرا
پرتوِ سُورہ یٰسیں ، لب و لہجہ تیرا
ایک شہپارہء تطہیر ہے چہرا تیرا
نَبَوی ضَو ، عَلَوی رنگ بتُولی عِفّت
حَسَنی اور حُسینی ہے سراپا تیرا
جوہرِ شبّر و شبیّر سے پا کر ترکیب
ہو گیا کیا نَسَبی رنگ دوبالا تیرا
چھُپ گئے سامنے اُس کے عُرَفا ، مثلِ نُجُوم
مطلعِ فقر پہ خورشید جو چمکا تیرا
یُوں تو سب اہلِ ولایت نے مراتب پائے
پر کسی شخص نے پایہ نہیں پایا تیرا
پا سکا تیرے سوا کون مقامِ مخدع
تجھ سے مخصُوص ہے یہ رُتبہء اعلیٰ تیرا
کر گیا ماند ولایت کے درخشاں سب چاند
لاڈلا یہ پِسراے سیّدہ زہرا تیرا
عہد تک تیرے نہیں تیرا تصرّف محدود
سچ تو یہ ہے کہ ہر اک عہد ہے شاہا تیرا
قصرِ اَفضال کے اَبواب ہُوئے وا تجھ پر
نافذ و رائجِ دارین ہے سِکّہ تیرا
کون سے سِلسلہ کو تُو نے مُعطّر نہ کیا
کون سے گُلکدہ میں رُو پ نہ جھلکا تیرا
قُربتِ ذات میں ہے تیرا قیام اور سُجُود
عرش کی پاک فضائیں ہیں مُصلّےٰ تیرا
ذہنِ تیرہ پہ اُترتی ہے ستاروں کی برات
کبھی لاتا ہُوں تصوّر میں جو مُکھڑا تیرا
رنگ والوں کے بھی رنگ اُڑ گئے تیرے آگے
ذاتِ بے رنگ نے وہ رنگ جمایا تیرا
تُو ولایت کا وہ دُولہا ہے کہ باعجز و نیاز
اولیاء پڑھتے ہیں ہر دَور میں سہرا تیرا
اصفیاء میں تِری غوثیّتِ کبٰری کے مُقِر
ہمہ اقطابِ جہاں دیتے ہیں پہرا تیرا
حُسن میں ، علم و جلالت میں ، مسیحائی میں
کوئی ثانی نہیں اے دلبرِ زہرا تیرا
جان و دل وارتی اے یُوسفِ یعقوبِ عرب
دیکھ پاتی جو زُلیخا رُخِ زیبا تیرا
دیکھ کر سیّدِ لولاکؐ کا اندازِ جمال
انبیاء چُوم نہ لیں حشر میں ماتھا تیرا
جُنبشِ لب سے ہے اَبوابِ اجابت کی کُشاد
رد نہیں کرتی مشیّت بھی تقاضا تیرا
اُس نے مخمور کئے بادہ کشانِ وحدت
کاسہء وصل سے اک گُھونٹ جو چھلکا تیر ا
جو کہا تُو نے وہ مآمور مِنَ اللہ ہو کر
اپنی خواہش سے نہیں کوئی بھی دعوٰی تیرا
جادہء رُشد ، ترے شہر کی ایک ایک گلی
حلقہء فیض ، وہ درس اور وہ اِفتا تیرا
ابدیّت کی علامت ہے ترا نُورِ جبیں
جلوہء ذات کا آئینہ ہے جلوا تیرا
تُو نے تاریکئ طاغوت کا دل چیر دیا
ابنِ زہرا یہ تد بّر ، یہ کلیجا تیرا
بندہ قادر کا ہے تُو اور ہے قادر کو دوام
ہم رہیں یا نہ رہیں ، نام رہے گا تیرا
کچھ ملائک بھی ہیں قُدرت کی طرف سے ماء مور
کوہِ شہرت پہ بجاتے ہیں جو ڈنکا تیرا
تاجداروں کا تصرّف ہے زمیں تک محدُود
سر زمینِ دلِ انساں پہ ہے قبضہ تیرا
لرز اُٹھتے ہیں سلاسل کے سفینے سارے
قادری اَوج پہ چڑھتا ہے جو دریا تیرا
بخُدا مُلکِ ولایت میں رسالت کے بعد
حشر تک کا جو زمانہ ہے ، وہ تنہا تیرا
وہ مُقدّ ر کے دھنی تھے کہ جنہوں نے پایا
دل نشیں عہد ، وہ اک دَور سُنہرا تیرا
باعثِ فخر ہے عاقل کے لیے تیرا جُنُوں
پاک زہنوں کے لیے رزق ہے سودا تیرا
مَیں غلام اور تُو آقا، مَیں سوالی ، تُو کریم
طے ازل میں ہُوا رشتہ یہی ، میرا تیرا
حُکم پر شمع کی لَو ، پھیر دے طوفان کا رُخ
سگ لڑے شیر سے ، پائے جو اشارا تیرا
تُو ہے اُمّت کا وہ نوشاہ کہ اقطابِ جہاں
جھولیاں بھرنے کو گاتے ہیں بدھاوا تیرا
تھا دلِ ارض میں پامالیء پیہم کا ملال
مُہرِ اِعزاز بنا نقشِ کفِ پا تیرا
کیوں نہ بیٹھے وہ ترے در پہ رما کی دُھونی
جس کا سرمایہ ہو لے دے کے بھروسا تیرا
بخت اُس کا ہے ، کرم اُس پہ ہے ، توقیر اُس کی
جس کی نظروں میں ہو دربارِ مُعلّےٰ تیرا
کیوں فرشتے نہ ستاروں سے بھریں مانگ اُس کی
وہ سُہاگن ، جسے آجائے بُلاوا تیرا
اپنے کُوچے میں جگہ دے کہ نہ جائے گا کہیں
تیرے در سے یہ نمک خوار پُرانا تیرا
میرے نزدیک ، نہیں یہ کیسی اِعزاز سے کم
گر کہیں لوگ مجھے بندہء رُسوا تیرا
جس پہ ہو جاتے ہیں مخلوق کے دروازے بند
کھٹکھٹا تا ہے وہ آخر درِ والا تیرا
سبز گُنبد کی تجلّی سے ہے اُس کا رشتہ
کیوں نہ پھر مہبطِ انوار ہو روضہ تیرا
قبر ہو ، حشر ہو ، یا پُل ہو کہ میزانِ عمل
ہم غلاموں کے سروں پر رہے سایہ تیرا
وہ بھٹکنے نہیں پاتا کبھی راہِ حق سے
سامنے جس کے رہے اُسوہء عُلیا تیرا
کیفِ نظّارہ سے محرُوم ہے چشمِ اعمیٰ
جس کے پاس آنکھ ہے تکتا ہے وہ رستہ تیرا
حیف صد حیف کہ کچھ پست نظر ، پست اندیش
اِس پہ کُڑھتے ہیں کہ اُونچا ہے ستارہ تیرا
دستِ مشّاطہء قدرت نے سنوارا ہے تجھے
لاکھ سر مارے ، بگاڑے گا کوئی کیا تیرا
تجھ کو کیا فِکر ، کوئی تیرا بنے یا نہ بنے
شاہِؐ بطحا ترے ، اللہ تعالیٰ تیرا
روک سکتا ہے اُبھرنے سے کوئی سورج کو ؟
ایک چڑھتا ہُوا خورشید ہے چرچا تیرا
دو سفینوں میں بیک وقت سفر ، ناممکن
یا تو دُنیا کا رہے بن کے کوئی، یا تیرا
ساتھ رہتی ہے سدا تیرے تعاون کی برات
نام لیوا کبھی رہتا نہیں تنہا تیرا
جسمِ اعمال برہنہ ہے ، خُدارا اِسے ڈھانپ
کہ خطا پوش ہے دامانِ مُعلّےٰ تیرا
گھیر رکّھا ہے مجھے بھی شبِ رُسوائی نے
مَیں بھی ہُوں منتظر اے صُبحِ تجلّےٰ تیرا
جس نے دُنیا میں کہا غوث ہیں میرے میرے
وہ قیامت میں بھی کہلائے گا تیرا تیرا
بخت جاگا ، جو تجھے خواب میں دیکھا اک بار
کیا مُقدّر ہے کہ جلوہ نظر آیا تیرا
عقل دی ، علم دیا ، نام دیا ، نسبت دی
مجھ سے ناچیز پہ احسان ہے کیا کیا تیرا
تِیر بیکار ہے ، گر ساتھ نہ دے زورِ کماں
نام میرا ہے ، مگر کام ہے سارا تیرا
جس نے کھائی ہے ترے نام پہ مِٹنے کی قَسَم
ہے نصیؔر ایک وہ باقاعدہ شیدا تیرا
گر نصیؔر اہلِ سِتم پنجہء تُو برتابند
ہر گز از دست مدہ دامنِ آں ذاتے را
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- فیضِ نسبت