تیرے اندر خدا محمدؐ اور قرآن بھرا تھا
تیری ہڈیوں کے گُودے تک میں ایمان بھرا تھا
سب سے پہلے کعبے نے تیری آواز سنی تھی
تیری پہلی سانسوں نے دیوارِ دین چُنی تھی
جسکے جسم سے آتی رہتی خوشبو بھینی بھینی
برسوں حاصل رہی تجھے اُسکی آغوش نشینی
سب سے پہلے جو ایمان نبیؐ پر لایا تو تھا
کیسے نہ تھا نبیؐ کا سایا، نبیؐ کا سایا تو تھا
اہل اپنی ذوالفقار کا تجھ کو سرکار نے سمجھا
اُن کے زاویوں کا مطلب تیری پرکار نے سمجھا
فتحِ خیبر کا پرچم بھی دیا رسولؐ نے تجھ کو
جھک کر کیا سلام ہمیشہ ہر اصول نے تجھ کو
بھوک چمک کر تیرے اندر روشنیاں کر دیتی
جَو کی روٹی تیرے بازوؤں میں بجلی بھر دیتی
مُہر محمدؐ ثبت تھی تیری صبحوں پر شاموں پر
تیرا نام لکھا ہے معرفتوں کے احراموں پر
علم کا شہر محمدؐ اور اس شہر کا دروازہ تو
چودہ صدیوں بعد بھی ہے کتنا تازہ تازہ تو
عرش معلیٰ تک جاتی تھی تیری خوشبو مولا
نبیؐ نے خود فرمایا، جس کا میں اُس کا تو مولا
ہجرت کی شب بھائی کے بستر پر تُو جا لیٹا تھا
دین بچایا نانا کا جس نے ، تیرا بیٹا تھا
مخمل کو شرماتی، تیرے جسم کی چادر سُوتی
آنکھ عقابی ، ذہن آفاقی، آوازیں ملکوتی
سچائی ہے فریفتہ تجھ پر، حق ساتھ ہے تیرے
شہادتوں کے بازاروں کی رونق ساتھ ہے تیرے
اے مٹّی کے باپ، ترے قدموں کی مٹّی سونا
یہی سنہری مٹی میرا اوڑھنا مرا بچھونا
شاعر کا نام :- مظفر وارثی
کتاب کا نام :- صاحبِ تاج