وہ ایک فرد جو محور تھا سارے رشتوں کا

وہ ایک فرد جو محور تھا سارے رشتوں کا

قرابتوں کا امیں اور شفقتوں کا شرف

خدا کا فضل تھا اس پر کہ وہ نجیب بھی تھا


وہ مصطفیٰ بھی تھا حیدر بھی تھا حسن بھی تھا

وہ اپنی ذات میں تنظیم تھا، جماعت تھا

قبولیت میں دعاؤں کی وہ مجیب بھی تھا


سبھی کو پیار دیا اور سبھی سے پیار لیا

خلوص اس کا اجارہ، صٖفا تھی مِلک اس کی

وہ اچھے ستھرے کے گلشن کا عندلیب بھی تھا


دلوں کو جوڑنا اس کا مشن تھا ساری عمر

نفاق سے اسے نفرت وفا شعار اس کا

محب تھا اور تھا محبوب اور حبیب بھی تھا


وہ ذاتِ غوث میں پہنچا فنا کے درجے تک

وہ اپنے گھر کی بزرگی کا بھاری پتھر تھا

علاج آنکھوں سے کرتا تھا وہ طبیب بھی تھا


قرآنی علم کا حامل حدیث کا حامل

وہ قول میں متوازن عمل میں محکم تھا

فصاحتوں کا مدبر بڑا ادیب بھی تھا


چلا گیا ہے بظاہر ہماری دنیا سے

پر اس کی روح کا فیضان اب بھی جاری ہے

مقدروں کے افق پر وہ با نصیب بھی تھا


وہ علم بانٹنے والا عمل کا مردِ قوی

وہ خانقاہ منش اور مزاج شاہانہ

رضا کے مسلکِ محکم کا وہ نقیب بھی تھا


تمہیں ہو نظمی نہ کیوں ناز دوہرے رشتے پر

تمھارے بچوں کا دادا تھا اور نانا بھی

و ہ دور رہتا تھا لیکن بہت قریب بھی تھا

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

قادریت کے نشاں تھے حضرتِ سید میاں

رضویت ماتم کناں ہے مضطرب برکاتیت

ان کی صورت نور کی تفسیر تھی

چھوڑو اس دنیا کی سیاست حسن میاں کی بات کرو

خدائے پاک کی رحمت تھے احسن العلماء

یہ کس نے دہن گنہ میں لگام ڈالی ہے

ذوالفقارِ نبی جب علی کو ملی

سارے جگ میں ہو گیا چرچا منیر الدین کا

صاحبِ علمِ لدنی صدرِ بزمِ اولیا

سلام اے گلبدن شہیدو