یا علی مرتضی مولا مشکل کشا جس پر چشم کرم آپ کی ہو گئی
اس کی قسمت کے روشن دیئے ہو گئے دور آلام کی تیرگی ہو گئی
جس پہ نازاں شہادت وہ ہے تیرا گھر ہے ولائیت جھکی تری دہلیز پر
رکھدیا جس نے بھی تیری چوکھٹ پہ سر اسکی قسمت بھلی سے بھلی ہو گئی
وہ نگاہِ نبوت کا پالا علی فاطمہ کی نظر کا اُجالا علی
جب حرم کا نگیں چمکا کونین میں ہر طرف روشنی روشنی ہوگئی
اس کے پاؤں کی ٹھوکر میں میں سیم وزر زندگی ہوگئی اس کی رشک قمر
پھر کسی در پہ بھی وہ نہ آئی نظر جو بھی جوگن ترے نام کی ہوگئی
پاس آئی گی اس کے نہ مشکل کبھی جس نے دل سے کہا یا علی یا علی
راحتوں کی اسے پھر ضمانت ملی جس کو حاصل تری چاکری ہوگئی
المدد یا علی یا علی مرتضی آسرا ہے مجھے اک ترے نام کا
بھر دو کاسہ مرا میرے حاجت روا میں تو منگتی ترے نام کی ہوگئی
حیدری میکدہ جب نجف میں کھلا کیا کہوں کیف آئے مجھے کیا سے کیا
جام نام علی پر جو میں نے پیا زندگی میری مخمور سی ہوگئی
میری تقدیر کا باب روشن ہوا میرے ہاتھوں میں دامن ہے سادات کا
محفل مرتضی میں جو حاضر ہوا مری تقدیر کھوٹی کھری ہوگئی
اپنی قسمت پہ نازاں نیازی ہوں میں اس گھرانے کی نسبت پر راضی ہوں میں
میری قسمت کی معراج تو دیکھئے وقف نام علی زندگی ہوگئی
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی