یہ ہیں محمدؐ کے جگر پارے
جو سوئے کرب و بلا چلے ہیں
یہ اپنے نانے کا دیں بچانے
پہن کے تاجِ رضا چلے ہیں
کسی کو کہنے کی ہو نہ جرات
کہ آئے سید نہ بعیت لینے
گواہی دینا اے راہ کے ذرو
نبھانے رسمِ وفا چلے ہیں
یہ مصطفیٰ کے جگر کے ٹکڑے
یہ فاطمہ کی نظر کی ٹھنڈک
یہ مردِ میداں علی کے بیٹے
قضا کی بن کر قضا چلے ہیں
فلک کی آنکھوں سے خوں بہے گا
زمیں کا دامن بھی تر رہے گا
جو دونوں عالم کو درد ایسا
حسین کر کے عطا چلے ہیں
درود ان پر کروڑ ہر دم
سلام ان کو میرا نیازی
جو جاکے کربل میں پھر سے کعبے کی
کر کے قائم بناء چلے ہیں
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی