مسافرانِ رہِ مدینہ محبتوں کا سفر مبارک
سعادتوں کا نجابتوں کا مسرّتوں کا سفر مبارک
وہ جس کے کانٹے گلاب جیسے وہ جس کے کنکر حریر و دیبا
وہ راحتِ قلب و جاں میں ڈھلتی مشقتوں کا سفر مبارک
ہوائیں جیسے مہک رہی ہوں فضائیں جیسے چمک رہی ہوں
وہ رنگ و خوشبو میں تاباں فرحاں مسافتوں کا سفر مبارک
وہ روح پرور پیام آئے جو خوش نصیبی بھی ساتھ لائے
امید افزا یقین دادہ اجازتوں کا سفر مبارک
قدم سے یوں دل ہو میلوں آگے غزال جیسے ختن میں بھاگے
شعور پرور وفور جذبوں کی سبقتوں کا سفر مبارک
فراق موسم کے جاتے لمحے وصال رُت کی یہ آتی گھڑیاں
وصال و فرقت کے درمیاں یہ محبتوں کا سفر مبارک
سفر مدینے کا ہر طرح ہی سعید ہوتا حسین ہوتا
مگر یہ شاہوں کے زیرِ سایہ سعادتوں کا سفر مبارک
بصد سلام و درود آقا یوں کہہ رہا تھا غلام آقا
تمہارا نوری بھی کاش پاتا یہ رحمتوں کا سفر مبارک
شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری
کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا