ابھی ابھی جس کا تذکرہ تھا، اسی کا لخت جگر تھی وہ بھی

ابھی ابھی جس کا تذکرہ تھا، اسی کا لخت جگر تھی وہ بھی

یہ شمسِ افلاکِ انما ہے، اسی کا نورِ نظر تھی وہ بھی

یہ ملکِ تطہیر کا شجر ہے، اسی شجر کا ثمر تھی وہ بھی

یہ روحِ واللیل و والقمر ہے تو پھر دلیلِ سحر تھی وہ بھی

وہ صدرِ اجلاسِ پنجتن تھی مگر یہ محبوبِ کبریا ہے

نظر جھکا کر درود پڑھ لے وہ فاطمہ تھی یہ مصطفیٰؐ ہے


اسی کی خاطر سجا رہا ہوں یہ ہفت عالم نگار خانہ

زمیں کے یہ رنگ رنگ موسم فلک کی رفعت کا شامیانہ

کہیں شہابوں کے تازیانے کہیں ستاروں کا آشیانہ

اسی کا صدقہ بھری خدائی اسی کی خیرات ہے زمانہ

ابھی تو اس نقش کے خدو خال میں کئی رنگ میں بھروں گا

مرا ارادہ ہے روزِ محشر یہ جو کہے گا وہی کروں گا


یہ میم سے ممکناتِ عالم کے آسماں کا مہِ مبیں ہے

یہ ح سے حاکم ہے حکمتوں کا حکیم حق حرزِ مومنیں ہے

یہ میم سے ملتوں کا مرکز مشیرِ اعمالِ مرسلیں ہے

یہ دال سے درد کی دوا ہے دماغِ چارہ گرِ یقیں ہے

یہی محمدؐ ہے، ذات جس کی فلک پہ مشہور ہو گئی ہے

اسی کے پردے میں چار ظاہر تھے ایک مستور ہوگئی ہے

شاعر کا نام :- محسن نقوی

کتاب کا نام :- حق ایلیا

دیگر کلام

صَلِ علٰى صَلِ علٰى صَلِ علٰى پڑھو

صُبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

دیکھو تو ذرا نسبت سلطان مدینہ

تری ذات مصدرِ ہر ضیا ترا نام مطلعِ نور ہے

تری ہری بھری دُعا کے سائبان میں رہوں

چلتے چلتے جو نظر شہرِ مدینہ آیا

مل گئی بھیک آپؐ کے در کی

دِل سے اوہام مٹے فکر نے رستہ پایا

تیرے تے سلام سانوں تار دین والیا

میرے مدنی سوہنے ورگا جگ دے اندر سوہنا کوئی ناں