ابھی ابھی جس کا تذکرہ تھا، اسی کا لخت جگر تھی وہ بھی
یہ شمسِ افلاکِ انما ہے، اسی کا نورِ نظر تھی وہ بھی
یہ ملکِ تطہیر کا شجر ہے، اسی شجر کا ثمر تھی وہ بھی
یہ روحِ واللیل و والقمر ہے تو پھر دلیلِ سحر تھی وہ بھی
وہ صدرِ اجلاسِ پنجتن تھی مگر یہ محبوبِ کبریا ہے
نظر جھکا کر درود پڑھ لے وہ فاطمہ تھی یہ مصطفیٰؐ ہے
اسی کی خاطر سجا رہا ہوں یہ ہفت عالم نگار خانہ
زمیں کے یہ رنگ رنگ موسم فلک کی رفعت کا شامیانہ
کہیں شہابوں کے تازیانے کہیں ستاروں کا آشیانہ
اسی کا صدقہ بھری خدائی اسی کی خیرات ہے زمانہ
ابھی تو اس نقش کے خدو خال میں کئی رنگ میں بھروں گا
مرا ارادہ ہے روزِ محشر یہ جو کہے گا وہی کروں گا
یہ میم سے ممکناتِ عالم کے آسماں کا مہِ مبیں ہے
یہ ح سے حاکم ہے حکمتوں کا حکیم حق حرزِ مومنیں ہے
یہ میم سے ملتوں کا مرکز مشیرِ اعمالِ مرسلیں ہے
یہ دال سے درد کی دوا ہے دماغِ چارہ گرِ یقیں ہے
یہی محمدؐ ہے، ذات جس کی فلک پہ مشہور ہو گئی ہے
اسی کے پردے میں چار ظاہر تھے ایک مستور ہوگئی ہے