اچھا لگتا ہے یا سب سے اچھا لگتا ہے

اچھا لگتا ہے یا سب سے اچھا لگتا ہے

سب تو کہو سرکارؐ کا منگتا کیسا لگتا ہے


ہر دھڑکن سے صلے علیٰ کی آتی ہے آواز

یہ دل بھی میرا تو نہیں ہے اُن کا لگتا ہے


جس پہ کرم ہوتا ہے زیادہ میرے پیارے ساقی

تیرے کرم کا اُتنا ہی وہ پیاسا لگتا ہے


ان کے در سے پلنے والے اپنا آپ جواب

کوئی غریب نواز ہے کوئی داتا لگتا ہے


ان کی نسبت درد نےپائی یہ ہے میری مِعراج

اَب تو یہ آزار محبت جیسا لگتا ہے


سوچتا رہتا ہوں میں اکثر وہ خود کیا ہونگے

جِن کے دَر کی خاک کا ذرّہ تارا لگتا ہے


لاتعداد درُود پڑھو سَب آقا کے دیوانوں

محفل میں موجود ہیں آقا ایسَا لگتا ہے


اُن کا کرم معیارِ کرم ہے اُن کے کرم کے قرباں

مجھ کو ان کی بھیک پہ پلنا اچھا لگتا ہے


دور ہوں لیکن پھر بھی خالِدؔ ان گلیوں میں ہوں

کوئی منظر پیشِ نظر ہو طیَبہ لگتا ہے

شاعر کا نام :- خالد محمود خالد

کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے

دیگر کلام

کب یہ چاہا ہے مجھے لعل و گہر مل جائے

یہ جو حسنِ خیال ہے آقا

اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے

انشاء اللہ یار مدینے جاواں گے

نہ کیوں آرائشیں کرتا خدا دنیا کے ساماں میں

ذرا چھیڑ تو نغمۂ قادریت کہ ہر تار بولے گا تن تن تنا تن

معطر معطر پسینہ ہے ان کا

آپ شاہد مبشّر نذیر آپ ہیں

جس دِل وچ عشق مُحمد دا اُس دِل وچ نور آجاندا اے

لبوں پر درود و سلام آ رہے ہیں