ادب سے حضرتِ حسان کی تقلید کرتے ہیں
تو قدسی بھی ہماری بات کی تائید کرتے ہیں
درِ تمدیح پر حرف و ہنر کو سر بہ خم کر کے
سفالِ حرف کو ہم واقفِ ناہید کرتے ہیں
اماوس جڑ پکڑتی ہے اگر کشتِ مقدر میں
خیالِ مصطفیٰ سے قلب و جاں خورشید کرتے ہیں
ہمیں ناموسِ روحِ دو جہاں پر جان دینی ہے
شبِ میلاد ہم اس عہد کی تجدید کرتے ہیں
ہمیں میلاد کا ماہِ مبارک شاد کرتا ہے
ربیعِ نور کی بارہ کو اپنی عید کرتے ہیں
تصور میں ابھر آتا ہے اک عنبر فشاں چہرہ
کھلی آنکھوں سے شاہِ دوسرا کی دید کرتے ہیں
طفیلِ مدحتِ شاہِ زمن اشفاق محشر میں
خدا بھی در گزر فرمائے گا امید کرتے ہیں
شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری
کتاب کا نام :- انگبین ِ ثنا