ایک خواہش مرے دل میں برسوں سے ہے

ایک خواہش مرے دل میں برسوں سے ہے

میری راتیں اُجالوں سے معمور ہوں


میری آنکھیں تجلّی کی روشن سحر پا کے مسرور ہوں

میری تاریک دنیا میں


ایسی بھی ہو اک سحر جلوہ گر

سب سے میں کہہ سکوں


میرے خوابوں کی دہلیز پر رات بھر

لمحے لمحے کو سورج بناتے رہے


جگمگاتے رہے

اُس قدم کے نشاں


اُس قدم کے نشاں

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

ہر فصل میں پایا گلِ صحرا تروتازہ

پردے جس وقت اُٹھیں جلوۂ زیبائی کے

ایسی بھی ہے مرے آقاؐ کے نگر کی خوشبو

ہر تحفئہ نعت و درود

جب سے سانسوں میں مِری رچ بس گئی نعتِ نبی

حبیب ربانے

میں راہ اوہدے وچ رُل دا ہاں محبوب پیارا نہیں آیا

عربی دُلارا عرشاں دا تارا

باغِ جنت میں نرالی چمن آرائی ہے

آپ کا ثانی شہا کوئی نہیں