ایسے عاصی بھی ہیں جو تاب نظر رکھتے ہیں

ایسے عاصی بھی ہیں جو تاب نظر رکھتے ہیں

اپنی آنکھوں میں محبت کے گہر رکھتے ہیں


سیرت ختم رسل اُن کی نظر کا سُرمہ

وہ جو تاریخ تمدن پہ نظر رکھتے ہیں


وه مدینہ محمد کا تجلی خانہ

ہم ہیں بے مایہ، مگر عزم سفر رکھتے ہیں


میرے سید مرے حامد پہ کرم ہو یا رب

فیض احمد سے جو قرآں پہ نظر رکھتے ہیں


شہر طیبہ میں ملے حضرتِ شرقی ہم کو

وہ جو سرکار کی مدحت کا ہنر رکھتے ہیں


تم غلامان محمد سے ملو تو کشفی

وہ تو احول دو عالم کی خبر رکھتے ہیں

شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی

کتاب کا نام :- نسبت

دیگر کلام

مُعْطِیِ مطلب تمہارا ہر اِشارہ ہوگیا

شاہِ ولایت شافعِ محشر

تخلیق ہوا ہی نہیں پیکر کوئی تم سا

یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک

واہ کیا ہے کتابِ نعت پہ نعت

ترے پنگھٹ سے بادل اپنی گاگر بھرنے آتے ہیں

نورِ احمد کی حقیقت کو جو پہچان گیا

ہے یہ دیوان اُس کی مدحت میں

زمین کے ہوں کہ باشندے آسماں والے

آپؐ کا رحمت بھرا ہے آستاں سب کے لیے