اشکوں کی چادر چہرے پر آنکھوں میں گنبد عالی ہے
خوابوں کا نگر آباد رہے خوابوں میں سنہری جالی ہے
رحمت کے رنگ انوکھے ہیں بخشش کی شان نرالی ہے
اُس در کی عطائیں کیا کہنا جس در پر وقت سوالی ہے
محشر کے جلتے لمحوں کا خوف اور مسلماں ہو کے ہمیں
اشکوں سے نبی نے اُمت کی ہر فرد عمل دھوڈالی ہے
صحرا کوئی راہ میں آ نہ سکا کوئی آندھی چھو کر جا نہ سکی
اس نام کی برکت سے زندہ آوازِ اذانِ بلالی ہے
اس ابرِ کرم کا طالب ہوں جو گلشن جاں سیراب کر ے
میں ایک شجر ہوں ایسا شہا جو برگ و ثمر سے خالی ہے
ہے جسم و جاں کا ہر گوشہ روشن روشن مہکا مہکا
لگتا ہے کہ قرطاسِ دل پر کوئی نعت اُترنے والی ہے
بے پوچھے فرشتے لوٹیں گے یہ کہہ کہ لحد سے میری صبیحؔ
یہ جسم مدینے والا ہے یہ روح مدینے والی ہے
شاعر کا نام :- سید صبیح الدین صبیح رحمانی
کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی