اے شہِ بیکس نواز کوئی نہیں چارہ ساز

اے شہِ بیکس نواز کوئی نہیں چارہ ساز

ہم ہیں یہاں پر تپاں دُور ہے ہم سے حجاز


یادِ شہ ِ دوسرا ہم کو ہے صبح و مسا

یہ ہے ہمارا سجود یہ ہے ہماری نماز


دیجئے مجھ کو مُراد کیجئے دل میرا شاد

آپ ہیں ابرِ کرم آپ ہیں بندہ نواز


آپ کی تابانیاں ، آئینہ سامانیاں

دیکھ کے حیرت میں گم ہو گیا آئینہ ساز


یادِ دیارِ حبیب ہوگئی دل کو نصیب

اب نہ غم ِ عقل و ہوش اب نہ غمِ امتیاز


اب تو کرم کا ہو کام میری غرض ہو تمام

آپ سمجھ ہی چکے حسرتِ دستِ دراز


آپ پہ ہے حق فدا آپ ہیں حق پر نثار

اے شہِ دیں آپ ہیں صاحبِ ناز و نیاز

شاعر کا نام :- بہزاد لکھنوی

کتاب کا نام :- نعت حضور

دیگر کلام

وہ اُجالے جو نورِ نبی سے ہوئے

مدینے وچ نبی سوہنے دا گھر اے

اذن و فضل و عطا بسم اللّٰہ

ٹھہرو ٹھہرو رہ جاؤ یہیں کیوں طیبہ نگر سے دور چلے

بس درودوں کی ہی تکرار ہے میرے آقا

اک مسافر بعد تکمیلِ سفر واپس ہوا

ایک ذرّے کو بھی خورشید بناتے دیکھا

ہر اک دَور ترے دَور کی گواہی دے

تیرے نام سے ہی تو میرا بھرم ہے

گلشنِ دہر میں ہر جا ہے لطافت ان کی