ایک ذرّے کو بھی خورشید بناتے دیکھا

ایک ذرّے کو بھی خورشید بناتے دیکھا

اُن کو ہر حال میں تقدیر جگاتے دیکھا


واقعی اب بھی دلوں پر ہے حکومت اُن کی

سرکشوں کو سرِ تسلیم جُھکاتے دیکھا


آنکھیں پڑھتی ہیں اگر دیکھ کے روضے کو دُرود

آنسؤوں کو بھی وہاں نعت سُناتے دیکھا


درودیوار ہیں روشن کہیں آنسو روشن

جشن مِیلاد ہر اک شے کو مَناتے دیکھا


آپ کی قوّت ِ بازو پہ تصدّق دل و جاں

بار اْمّت کے گناہوں کا اُٹھاتے دیکھا


آپؐ کے آنے کا ایقان اِسے کہتے ہیں

ہم نے عشّاق کو گھر بار سَجاتے دیکھا


دل کہاں اَور کہاں آپ کے جلوے آقاؐ

ہم نے کوزے میں بھی دریا کو سَماتے دیکھا


جن کو دنیا میں کوئی پوچھنے والا ہی نہ تھا

اُن کو بھی دامنِ رحمت میں چھُپاتے دیکھا


اُس نے محسوس کیا عشق کِسے کہتے ہیں

جس نے خالدؔ کو کبھی نعت سناتے دیکھا

شاعر کا نام :- خالد محمود خالد

کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے

زمانے کی نگاہوں سے چھپاکر اُن

ثانی ترا کونین کے کشور میں نہیں ہے

پائی نہ تیرے لطف کی حد سیّد الوریٰ

روک لیتی ہے آپ کی نسبت

آنکھوں میں بس گیا ہے مدینہ حضور کا

پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سُناتے جائیں گے

یہ زندگی کا الٰہی نظام ہو جائے

خُلقِ رسولؐ سے اگر اُمّت کو آگہی رہے

نام بھی تیرا عقیدت سے لیے جاتا ہوں

حقیقت میں وہ لطفِ زندگی پایا نہیں کرتے