بیکسوں سے ہے جنہیں پیار وہی آئے ہیں
جو دو عالم کے ہیں غمخوار وہی آئے ہیں
جن کا دربار ہے دَر بار وہی آئے ہیں
جو ہیں سرکاروں کے سرکار وہی آئے ہیں
کہکشاں راہگزاروں میں اتر آئی ہے
کہہ رہے ہیں یہی آثار وہی آئے ہیں
گنگناتی ہیں فضائیں تو چمکے ہیں قلوب
جو ہیں خود نکہت و انوار وہی آئے ہیں
نامرادوں کی مسرت کا زمانہ آیا
جو ہیں کونین کے مختار وہی آئے ہیں
کھل گئے بخشش و رحمت کے سبھی دروازے
جن پہ نازاں ہیں گنہہ گار وہی آئے ہیں
حق نے فرمایا ہے مخلوق پہ احسان ِ عظیم
جو ہیں احسان کا معیار وہی آئے ہیں
مطمئن ہوگئے سب ان کا سہارا پاکر
جو ہیں خود رحمتِ غفار وہی آئے ہیں
جن کا دیدار ہے دیدارِ خدائے بر حق ،
مثردہ اے حسرتِ دیدار وہی آئے ہیں
کبھی گرتے ہی نہیں جن کے سنبھالے ہوئے لوگ
ہر قدم ہیں جو نگہداروہی آئے ہیں
جن پہ ثابت ہے خود اللہ تعالےٰ کا سلام
جھوم اٹھے ہیں در و دیوار وہی آئے ہیں
جو سرا پردہِ اسرار میں ہیں سرِ خدا
بانٹنے دولتِ اسرار وہی آئے ہیں
مانگنے والو چلو جھولیاں بھر لو اپنی
جن کا شیوہ نہیں انکار وہی آئے ہیں
جن کے اندازِ نظر میں ہے شفائے کامل
جن کے عیسٰی بھی ہیں بیمار وہی آئے ہیں
مختلف نام محمدؐ کی نبوت کے رہے
ہم سمجھتے ہیں کہ ہر بار وہی آئے ہیں
فاصلہ اب نہ کناروں کا رہے گا باقی ،
جو لگائیں گے ہمیں پار وہی آئے ہیں
جن کے خود دار غلاموں کی شجاعت ہے کنیز
جو ہیں جرّار و جگر دار وہی آئے ہیں
کوئی انساں نہ رہے گا کسی انساں کا غلام
جو ہیں سر حلقہِ ء احرار وہی آئے ہیں
کیوں نہ سَو جان سے ہو حُسنِ دو عالم قرباں
جو ہیں اللہ کا شاہکار وہی آئے ہیں
خوانِ نعمت ہیں وہ وسعت ہے کہ اللہُ غنی
جن کے ہم سب ہیں نمک خوار وہی آئے ہیں
حشر میں جن کی شفاعت کارواں ہے سکہ
کیوں پر یشاں ہیں گنہگار وہی آئے ہیں
اعتراف انکی ہی عظمت کا ہے خالدؔ ایماں
فرض جن کا ہوا اقرار وہی آئے ہیں
شاعر کا نام :- خالد محمود خالد
کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے