عظمتِ تاریخِ انساں ہے عرب کی سرزمیں

عظمتِ تاریخِ انساں ہے عرب کی سرزمیں

جس کا سینہ خواب گاہِ رحمت اللعالمیں


جس کے مستوں نے رکھا اوجِ ثریا پر قدم

جس کے کملی پوش کی اِک جست میں عرشِ بریں


جس کے اُمّی نے عطا کی سارے عالم کو زباں

فلسفہ ، شعر و سخں ، فکر و نظر ، دنیا و دیں


جس نے دنیائے تمدن کے سجائے بام و در

ڈال دی تہذیب کے سر پر رِدائے دل نشیں


جس کے پہلو میں ہے وہ آرامِ جاں راحت پذیر

جس نے بخشا ہم گنہ گارانِ اُمت کو یقیں


روضۂ شیرِ خدا ، خیبر شکن ، حضرت علی

گفتنی نَصْرٌ مِنَ اللہ، معنئ فتحِ مبیں


وہ حسین ابنِ علی ، نورِ نگاہِ فاطمہ

جن کے نانا کی شفاعت ، ہے امیدِ مذنبیں


کربلا کے ریگ زاروں کو شرف جس نے دیا

راحتِ تسکینِ قلبِ رحمت اللعالمیں


حضرتِ معروف کرخی کی ہے جو آرام گاہ

اور جنید با ولایت ، شہسوارِ عارفیں


چپّہ چپّہ منبر و محرابِ مسجد کی طرح

بو حنیفہ حضرتِ نعمان بن ثابت یہیں


وہ نجف ہو ، کوفہ و بصرہ ہو ، یا بغداد ہو

وہ حرم ہو ، قدُس ہو یا نینوا کی سرزمیں


وہ کہ جن کے زیرِ پا، خم گردن ِ کُل اولیاء

وہ محی الدین وہ بغداد کی روشن جبیں


وہ عرب جس کے مقدس کوچہ و بازار میں

خونِ مسلم سے ہوئی جاتی ہے پھر رنگیں زمیں


اس کی جانب بد نظر ہیں پھر غنیم ِ نامراد

خوگرِ حیوانیت ، تا تاریوں کے جانشیں


یہ درندے ، بھیڑیئے ، بدروح ، ظالم بو الہوس

قبلۂ اوّل کے غاصب ، دشمنِ دُنیا و دیں


جن کے ہاتھوں ہر جگہ ننگی ہوئی انسانیت

ویت نام و کوریا و شرقِ اوسط کی زمیں


کبر و نخوت اور طاقت کے نشہ میں چُور چُور

عسکری قوت پہ نازاں ، ابرہہ کے جانشیں


ہر ڈکیتی میں برابر کے یہ حصہ دار ہیں

کوریا، جاپان یا وہ جرمنی کی ہو زمیں


پاؤں رکھنے کو ملائک اِذن لیں اللہ سے

رب قسم قرآں میں کھائے ایسے رُتبہ کی زمیں


روند ڈالا مشرکوں نے پی کے انگوری شراب

ساتھ جن کے آئی ہیں مغرب کی پروردہ حسیں


جب لبِ بام ہوگیا ان کی معیشت کا نظام

تخت پر غارت گری کے ہو گئے مسند نشیں


دوستی کے پھول لے کر آئے آتش دان میں

ایلچی نمرود کے ، بارود کے تاجر حسیں


جس زمیں پر حق نے برسائی ہے رحمت رات دن

کر رہے ہیں اس پہ اب یہ لوگ بارشِ آتشْیں


لوگ دیتے ہیں انہی کو بدعا ، جی بھر کے خوب

آدمیت کا جنازہ جب بھی اُٹھتا ہے کہیں


سوچ کر انجام اپنی حسرت ناپاک کا

کوچۂ بغداد کی جانب قدم بڑھتے نہیں


انکا تکیہ پیٹریاٹ و لیزر و روبوٹ پر

جانتے ہیں خود گئے تو واپسی ممکن نہیں


یہ سمجھتے ہیں کہ ہم فاتح بنیں گے جس طرح

لی ہے " پینٹا گون " نے قبضہ میں خبروں کی زمیں


جرنلزم قید میں ان کی پیاسا ، بند ہے

اپنے قیدی کے لیے سر پر اُٹھائے ہیں زمیں


دشمنِ دیں ایک مر کز پر جمع ہیں اے ادیبؔ

غیرتِ مسلم کہاں جا کر ہوئی گوشہ نشیں

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

دیگر کلام

تقدیر کے سب لعل و گہر لے کے چلا ہوں

نہیں ہے منگتا کوئی بھی ایسا کہ جس

سرتا پا حِجاب آپ ہیں

بگڑی ہوئی بنتی ہے ہر بات مدینے میں

ترے نام کے نور سے ہیں منور مکاں بھی مکیں بھی

ربا سُن لے میریاں ہاواں مدینے والا ماہی میل دے

دامنِ دل مرا کھنچنے لگا بطحا کی طرف

’’کوچۂ خوشبو میں ہوں اور قریۂ نکہت میں ہوں‘‘

مبارک ہو جنابِ مُصطفےٰ کی آمد آمد ہے

در خیر الوری ہے اور میں ہوں