بہارِ بے خزاں آئی گلِ تر مسکراتے ہیں

بہارِ بے خزاں آئی گلِ تر مسکراتے ہیں

جہاں میں رحمتِ کون و مکاں تشریف لاتے ہیں


اندھیرے کفر و باطل کے جہاں صدیوں سے غالب تھے

وہ خطے اب ضیائے مہرِ حق سے جگمگاتے ہیں


مہک اٹھتی ہے ریتیلی زمیں گلزار کی صورت

عرب کے دشت و صحرا میں جدھر سرکار جاتے ہیں


حلیمہ سعدیہ تو ناز کر معراجِ قسمت پر

تری آغوش میں کونین کے سردار آتے ہیں


یہ ہے بوبکر کی عظمت حیاتِ ظاہری میں ہی

امامت کے مصلے پر انھیں آقاؐ بٹھاتے ہیں


جہانِ کفر میں نامِ عمر کی ایسی ہیبت ہے

جسے سن کر دلِ شاہانِ کسریٰ کانپ جاتے ہیں


سخاوت میں غنی کی شانِ یکتائی کا کیا کہنا

برائے ارتقائے دیں متاعِ زر لُٹاتے ہیں


علومِ مرتضیٰ کی وسعتوں کو کوئی کیا جانے

وہ جن کو بابِ شہرِ علم خود آقا بلاتے ہیں


تبسم ریز ہو جاتے ہیں اس دم معجزے احسنؔ

مرے سرکار انگشتِ رسالت جب اٹھاتے ہیں

شاعر کا نام :- احسن اعظمی

کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت

دیگر کلام

اے عشقِ نبی میرے دل میں بھی سما جانا

ہے ترپ دا دل مدینے والیا

دست بستہ ہیں درِ سرکارؐ پہ حاضر غلام

اے فخرِ رُسلؐ فخرِ بشرؐ سید ثقلینؐ

سجود فرض ہیں اظہارِ بندگی کے لئے

سیدِ ابرار پہ لاکھوں سلام

زمین و زماں تمہارے لئے

عرضِ موسیٰ کو صدائے لن ترانی مل گئی

اِک اِک حرف سجن دے ناں دا

نعتیں سرکار کی پڑھتا ہوں میں