بختِ خوابیدہ جگایا ہے ہمارا حق نے

بختِ خوابیدہ جگایا ہے ہمارا حق نے

کیا بنایا تجھے عالم کا سَہارا حق نے


کَون دیتا ہے کِسی کو کوئی محبُوب اپنا

جانے کِس طرح کِیا ہے یہ گوارا حق نے


کیوں نہ بے مثل ہو بے عیب ہو بے پایاں ہو

اپنے محبوب کو ہاتھوں سے سنوارا حق نے


رُوئے محبُوب حقیقت میں وہ آئینہ ہَے

اپنی ہستی کا کِیا جس میں نظارا حق نے


مقتدا بعد میں آتا ہے امامت کے لیے

بعد میں رکھا ہے یوں نام تمھارا حق نے


کہیں شاہد کہیں طاہا کہیں یٰسین کہا

یا محمدؐ کبھی کہہ کر نہ پُکارا حق نے


بھیج کر رحمتِ عالم کا سراپا اعظؔم

کر دیا زندہ دو عالم کو دوبارا حق نے

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

نہ دنیا میں اگر مہرِ رسالت ضوفشاں ہوتا

کسی شب خواب میں ایسا شہِ ابرار ہو جاتا

جدوں اُٹھ جائے پردہ مکھڑے توں دیدار حسیں ہو جاندے نے

مدینے دی ٹھنڈی ہوا اللہ اللہ

یہ دِل عرشِ اَعظم بنا چاہتا ہے

یَا نَبِیْ سَلَامٌ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلْ سَلَامٌ عَلَیْکَ

نگاہوں میں چمکتا ہے یہ منظر سبز گنبد کا

خلوت میں کبھی یاد جو آئی ترے در کی

جب بھی دامان کو وا کرتے ہیں

اپنا غم یاشہِ انبیا دیجئے