بات وہ پیرِ مغاں نے مجھے سمجھائی ہے

بات وہ پیرِ مغاں نے مجھے سمجھائی ہے

جس کے اظہَار سے انکار ہی دانائی ہے


اِک تری یاد ہے اور عالمِ تنہائی ہے

کِس قدر محوِ عبادت تِرا شیدائی ہے


اس کی نظروں میں بھلا تختِ سلیماں کیا ہے

جس کی قسمت میں تِرے در کی جبیں سائی ہے


کون کہتا ہے سوا تیرے کوئی اور بھی ہے

ہو اگر آنکھ تو ہر ذرّے میں یکتائی ہے


کیسے جائیں تِرے میکش تِرے میخانے سے

تشنہ لَب لَوٹ کے جانا بھی تو رسوائی ہے


ایک دو گھونٹ سہی آج وگرنہ سَاقی

بے پئے اٹھنے کی رندوں نے قسم کھائی ہے


ان کی محفل میں مرا ذِکر نہ کرنا اعظؔم

ورنہ کہہ دیں گے وہ دیوانہ ہے سودائی ہے

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

تپتی دُھوپ

عطا کر دو مدینے کی اجازت یارسولَ اللہ

بنے ہیں دونوں جہاں شاہِ دوسرا کے لیے

رونق پہ جس کی مصر کا بازار بھی فدا

کر دیا رب نے عطا رزقِ سخن نعت ہوئی

آپ کے قدموں پہ سر رکھنا مری معراج ہے

کس سے ممکن ہے صفت حضرت رَسُوْلُ اللہ کی

تُسیں ہو سب گہنگاراں دے حامی یارسول اللہ

کیسا اُمّت کا تھا یہ غم آقاؐ

اے قدیرِ قدرتِ بیکراں مجھے اذنِ عرضِ سوال دے