بنے ہیں دونوں جہاں شاہِ دوسرا کے لیے

بنے ہیں دونوں جہاں شاہِ دوسرا کے لیے

سجی ہے محفل کونین مصطفیٰ کے لیے


زباں کو اس لیے شیرینئی بیان ملی

زباں ہے مدتِ محبوب کبریا کے لیے


گدائے کوئے مدینہ ہوں کس کا منہ دیکھوں؟

اُنہی کی بخششیں کافی ہیں مجھ گدا کے لیے


اُنہی کو لذت عشق نبی ملی، کہ جنہیں

ازل میں چُن لیا قدرت نے اسِ عطا کے لیے


مرےکریم! میرے چارہ ساز و بندہ نواز

تڑپ رہا ہوں ترے شہر کی ہوا کے لیے


فرازِ طور پہ وہ بے نقاب کیوں ہوتے؟

کہ آشنا کی تجلی تھی آشنا کے لیے


حضور نور ہیں محمود ہیں محمد ہیں

جگہ جگہ نئے عنوان ہیں ثنا کے لیے


اُنہی کا ذکر، اُنہی کا بیاں، اُنہی کا نام

ہر ابتدا کے لیے ہے ہر انتہا کے لیے


عجیب نشئہ بےنام سا ہوا محسوس

زبان جب بھی کھلی ہے تری ثنا کے لیے

شاعر کا نام :- مظہر الدین مظہر

دیگر کلام

جب سامنے نظروں کے دربار نبیﷺ ہوگا

جانب منزل محبوب سفر میرا ہے

حرم کی اذان حسین اللہ اللہ

پیری کا زمانہ ہے مدینے کا سفر ہے

جب لیا نام نبی میں نے دعا سے پہلے

نور حضرتؐ کاجو طیبہ کے نظاروں میں نہ تھا

ہرکسی کو ہو بقدر ظرف عرفانِ رسول

وہﷺ کہ ہیں خیرالا نام

گو ہوں یکے از نغمہ سرایانِ محمد ﷺ

میں فنا اندر فنا ہوں تُو بقا اندر بقا