بے حد و انتہا ہے برکت درود کی

بے حد و انتہا ہے برکت درود کی

افکار میں سوا ہے فرحت درود کی


قربت کا سلسلہ ہے آقا کریم سے

کیف آفریں بہت ہے کثرت درود کی


اس دل میں ہو گا روشن اک نور کا دیا

جس دل میں بس گئی ہو الفت درود کی


محسوس ان کو ہو گی خوشبو حضور کی

جن کو بھی مل گئی ہے نعمت درود کی


سر پر درود محشر میں ہوگا سائباں

گھیرے رہے گی ہم کو رحمت درود کی


مقبولیت دعا کی ہوتی ہے اس کے ساتھ

دیکھی ہے یہ بھی اکثر حکمت درود کی


آلِ نبی کا صدقہ توفیق مل گئی

صد شکر ناز کو ہے عادت درود کی

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

مجھ کو مہکار محسوس ہو آپؐ کی

کملی والیا سُن فَریاداں

فہم و ادراک سے ماورا شان ہے

بن کے خیر الوریٰ آگئے مصطفیٰ ہم گنہ گاروں کی بہتری کے لیے

اس طرح جانِ دو عالم ہے دل و جان کے ساتھ

رقص و سرود و جام کی چنگ و رباب کی

کہیں پر عُود اور عنبر کہیں پر گُل بچھاتے ہیں

اپنی رحمت کے سمندر میں اُتر جانے دے

ہر تمنا ہی عاجزانہ ہے

یکتا یگانہ دلنشیں محبوبِؐ ربّ العالمیں