ہر تمنا ہی عاجزانہ ہے

ہر تمنا ہی عاجزانہ ہے

ہر گزارش ہی سائلانہ ہے


گر اجازت ہو عرض کرنے کی

مختصر سا مرا فسانہ ہے


پہلے دن سے ہوں آپ کا خادم

یہ تعلق بہت پُرانا ہے


یہ محبت بھی ہے بہت گہری

یہ عقیدت بھی والہانہ ہے


میں بھی عاجز ہوں اور ملنے کی

میری خواہش بھی عاجزانہ ہے


منتظر ہوں کرم نوازی کا

پاس ہی تو غریب خانہ ہے


آپ واقف ہیں آپ کو میں نے

کیا سُنانا ہے کیا بتانا ہے


میرے جیسوں کی آخری منزل

جا کے قدموں میں بیٹھ جانا ہے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

جانِ جہاں کے دم سے ہی دم ہے رگِ حیات میں

وقف نظمی کا قلم جب نعتِ سرور میں ہوا

حضورؐ مجھ کو بھی بلوائیے خدا کے لئے

وحشی کو انسان بنایا میرے کملی والے نے

بیشک میرے مولا کا کرم حد سے سوا ہے

پاک محمد کرم کما مینوں سدلَے روضے تے

آدم کا افتخار ہیں خیر البشر ہیں آپؐ

غم سینے میں اے سیّدِ ابرار بہت ہے

نبی کی یاد میں خود کو بُھلائے بیٹھے ہیں

بے بسوں بے کسوں کی دعا مصطفیٰ