بے خود کیے دیتے ہیں انداز حجابانہ

بے خود کیے دیتے ہیں انداز حجابانہ

آ دل میں تجھے رکھ لوں اے جلوۂ جانانہ


اتنا تو کرم کرنا اے چشم کریمانہ

جب جان لبوں پر ہو تم سامنے آ جانا


کیوں آنکھ ملائی تھی کیوں آگ لگائی تھی

اب رخ کو چھپا بیٹھے کر کے مجھے دیوانہ


زاہد میرے قسمت میں سجدے ہیں اسی در کے

چھوٹا ہے نہ چھوٹے گا سنگ در جانانہ


کیا لطف ہو محشر میں میں شکوے کئے جاؤں

وہ ہنس کے کہے جائیں دیوانہ ہے دیوانہ


ساقی تیرے آتے ہی یہ جوش ہے مستی کا

شیشے پہ گرا شیشہ پیمانے پہ پیمانہ


معلوم نہیں بیدمؔ میں کون ہوں اور کیا ہوں

یوں اپنوں میں اپنا ہوں بیگانوں میں بیگانہ

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

نوری محفل پہ چادر تنی نور کی

میں لجپالاں دے لَڑ لگیاں میرے توں غم پرے رہندے

محمد مُصطفیٰ نورِ خُدا نامِ خُدا تم ہو

اللہ ھو اللہ ھو دل پاوے جلیّاں

بھردو جھولی مری یا محمدؐ لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی

اب تو بس ایک ہی دُھن ہے کہ مدینہ دیکھوں

جشن آمد رسول اللہ ہی اللہ

لم‌ یات نظیرک فی نظرٍ مثل تو نہ شد پیدا جانا

یہ جو قرآن مبیں ہے رحمتہ اللعالمین ﷺ

ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیئے ہیں