بُلا لیجے مجھے پھر یا نبی دارِ فضیلت میں

بُلا لیجے مجھے پھر یا نبی دارِ فضیلت میں

کرم سے ہو مری پھر حاضری دارِ فضیلت میں


فرشتے رات دن بہرِ سلام آئیں اُسی در پر

شبانہ روز ہے رونق لگی دارِ فضیلت میں


مُرادوں سے وہاں دامن بھرے جاتے ہیں منگتوں کے

عطا سائل کو مُنہ مانگی مِلی دارِ فضیلت میں


شہِ کونین کے جُود و کرم کا واہ کیا کہنا

نہیں سُنتا نہیں کوئی کبھی دارِ فضیلت میں


چمکتا نور دیتا ہے وہاں پر گنبدِ خضرا

سدا رہتی ہے یُونہی روشنی دارِ فضیلت میں


اگرچہ حاضری سو بار ہو نیّت نہیں بھرتی

خدا نے ہے کشش ایسی رکھی دارِ فضیلت میں


درِ شہ پر جبینیں جُھک گئی ہیں تاجداروں کی

گدا بن کر کھڑی ہے خُسروی دارِ فضیلت میں


فقیرو! بے نواؤ! غم کے مارو! تم چلے آؤ

بنے گی بات ہر بگڑی ہوئی دارِ فضیلت میں


مجھے ہر سال طیبہ میں بُلانا یارسول اللہ

نہایت عاجزی سے عرض کی دارِ فضیلت میں


فنا ہوکر مدینے میں بقا ہوجائے گی حاصل

ہو میرا اِختتامِ زندگی دارِ فضیلت میں


میرے شعر و سُخن کو ہوگیا اعزاز یہ حاصل

کرم سے نعت مرزا نے لِکھی دارِ فضیلت میں

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

پُر تجلی کیوں نہ ہو اس کے مقدر کا چراغ

بے یار تے بے وس دے مددگار تُسی او

مدینے سے جدائی کی گھڑی ہے

نظر آتے ہیں پھول سب کے سب

شاہِ خوباں کی جھلک مانگنے والی آنکھیں

دور ہے اس واسطے مجھ سے بلا و شر کی دھوپ

میرا محمد رسول وی اے اوہ مرسلاں دا امام وی اے

کبھی اہل دول کے سامنے دامن کو پھیلایا

اگرچہ ذکرِ خُدا صُبح و شام کرتا ہُوں

ہر آیتی بہ شرح و بیانِ مُحمَّدؐ است