پُر تجلی کیوں نہ ہو اس کے مقدر کا چراغ

پُر تجلی کیوں نہ ہو اس کے مقدر کا چراغ

جس کے دل میں ضوفشاں ہے حُبِ سرور کا چراغ


جب ہوئے محبوبِ داور جلوہ گر کونین میں

جگمگایا مدحتِ محبوبِ داور کا چراغ


راہِ منزل مل گئی گُم گشتگانِ دہر کو

جب ہوا روشن جہاں میں فیضِ رہبر کا چراغ


لاکھ گُل کرنے کے درپے ہوں مخالف آندھیاں

بجھ نہیں سکتا کبھی عشقِ پیمبر کا چراغ


یوں مقابل بغضِ بوجہلی سے ہے عشقِ نبیؐ

سامنا کرتا ہے جیسے بادِ صرصر کا چراغ


لے کے دامن میں شفاعت کی ضیا محشر کے دن

جگمگائے گا شفیعِ روزِ محشر کا چراغ


آج بھی سارے جہاں کو کر رہا ہے ضوفشاں

کوچۂ طیبہ میں فیضانِ پیمبر کا چراغ


بر سرِ پیکار باہم ہیں غلامانِ نبیؐ

نذرِ آتش اپنے گھر کو کر نہ دے گھر کا چراغ


اب تو احسؔن کو دکھا دے یا خدا شہرِ نبیؐ

بجھ رہا ہے آرزوئے قلبِ مضطر کا چراغ

شاعر کا نام :- احسن اعظمی

کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت

دیگر کلام

نکہتِ عرقِ محمد ہے گلستاں کی اساس

کھلا ہوا ہے دو عالم پہ اُن کا باب کرم

کچھ غم نہیں ہے مجھ کو حساب و کتاب کا

سوہنا سوہنا پیر دا دِن ایں

اُس نے چھوڑا نہ کسی حال میں تنہا مجھ کو

ہم چاہیں کر لیں جتنی بھی مدحت حضور کی

طیبہ کی خنک بار ہوا دل میں بسا لوں

دل کے حرا میں ‘ اپنے خدا سے

انسان کو انسان بناتی ہے حدیث

کون و مکاں میں یا نبی تجھ سا نہیں کوئی