دل کے حرا میں ‘ اپنے خدا سے

دل کے حرا میں ‘ اپنے خدا سے تیرے سوا ‘ کچھ بھی نہ مانگا

تُو مرا اَوّل ‘ تُو مرا آخر تُو مرا ملجا ‘ تُو مرا ماویٰ


بعدِ خدا اِک تُو ہی سہارا ‘ گھِر گیا میں تنہا بے چارا

چار طرف تاریخ کا جنگل ‘ تاک میں اَپنے ‘ گھات میں اَعدا


کتنے صحیفے میں نے کھنگالے ‘ نصف اَندھیرے ‘ نصف اُجالے

تو ہی حقیقت ‘ تو ہی صداقت ‘ باقی سب کچھ صرف ہیولا


یوں تو ہزار سیانے آئے ‘ رُوح کا دشت بسانے آئے

تیری گھٹا صحراؤں پہ اُمڈی ‘ اَبر اُن کا دریاؤں پہ برسا


بت خانے حیران کھڑے ہیں ‘ بت تیرے قدموں میں پڑے ہیں

تیرے جمال کی زد میں آکر ‘ کیسا کیسا پتھر ٹو ٹا


تو نے دِیا مفہوم نمو کو ‘ تو نے حیات کو معنی بخشے

تیرا وجود اثبات خدا کا ‘ تو جو نہ ہوتا ‘ کچھ بھی نہ ہوتا

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

میں سوجاؤں یا مصطفٰے کہتے کہتے

مٹھے مٹھے سوہنے تیرے بول کملی والیا

نہ کوئی آپ جیسا ہے نہ کوئی آپ جیسا تھا

سر سوئے روضہ جھکا پھر تجھ کو کیا

اکرامِ نبی، الطافِ خدا، سبحان اللہ ماشاء اللہ

بے کس پہ کرم کیجئے، سرکار مدینہ​

گر وقت آ پڑا ھےمایوس کیوں کھڑا ھے

میرے اچھّے رسُول

پھر ہوا سازِ مدح زمزمہ سنج

راحت ِقلبِ غریباں