پھر ہوا سازِ مدح زمزمہ سنج

پھر ہوا سازِ مدح زمزمہ سنج

پھر ہوئی روح کیف سے معمور


مٹ گئے فاصلے دل و جاں کے

نہ رہا فرق ظاہر و مستور


زہے الطاف سیّدِؐ ابرار

مطمئن ہو گیا دلِ رنجور


زہے اکرامِ رحمتِؐ عالم

محترم ہوگئے جو تھے مقہور


امّئ نکتہ داں کی حکمت سے

حل ہوے سب مسائل ِ جمہور


آیہ نور چہرہ روشن

کیوں نہ تابندہ ہو شبِ دیجور


دافِع رنج و یاس و کرب والم

قاطعِ کفر شرک و فسق و فجور


محورو منتہائے فکر و نظر

چارہ فرمائے خاطرِ مہجور


راحت و اعتبارِ دیدہ تر

عظمت و اختیارِ ھر مجبور


اُس کے اوصاف کا احاطہ کروں

یہ کہاں تاب، یہ کہاں مقدور


چارہ جُزا عترافِ عجز نہیں

ذہن قاصر، شعور ہے معذور


صلہ مدحِ مصؐطفےٰ چاہوں

یہ نہیں میری طبع کو منظور


کیا یہ اعزاز کم ہے میرے لیے

نعتِ خیرالورایؐ پہ ہوں مامور


میرا ہر سانس ہے سپاس گزار

اے خداوندِ فکر وفہم شعور


بہ تقاضائے دیدہ بے تاب

کچھ نہ کچھ مانگنا ہے مجھ کو ضرور


سوچتا ہوں کہ تجھ سے کیا مانگوں

اے خدائے کریم و ربّ غیور


میرا دامانِ آرزو محدود

اور تیرا کرم ہے لا محصور


ہاں خطا سے مری ہو صرفِ نظر

سعئ ناقص ہو مقبل و مشکور


حرزِ جاں ہو مجھے ثنائے رسولؐ

رگ وپے میں ہو کیف و جذب و سرور


لب رہیں ترجمانِ صدق وصفا

دل ہو کذب و مبالغہ سے نفور


قبر میری بحّقِ ختمِ رسلؐ

ہو فراخ و معنبر و پُر نور


سائبانِ کرم ہو سر پہ مرے

سر میدانِ حشر یومِ نشور


آخرت کے سبھی مراحل میں

میرے نزدیک تر ہوں میرے حضورؐ

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

لطف و کرم خدا نے کیا ہے نزول کا

قرآن میں دیکھا تو انداز نرالا ہے

اُن پہ لکھنا شِعار ہے میرا

جب کیا میں نے قصدِ نعت حضورؐ

جی رہا ہوں میں اُس دیار سے دُور

اے مظہر لایزال آقا

خوش خصال و خوش خیال و خوش خبر، خیرالبشرؐ

پائی نہ تیرے لطف کی حد سیّد الوریٰ

بادِرحمت سنک سنک جائے

!اے روحِ تخلیق! اے شاہِؐ لولاک