انوارِ جمال

میری پہچان ہے سیرت ان کی

اس قدر کون محبّت کا صِلہ دیتا ہے

مجھے رنگ دے

میں تیرا فن ہوں

اے خُدا

مجھے نہ مژدہء کیفیتِ دوامی دے

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اُترے

یارب ‘ مرے وطن کو اِک ایسی بہار دے

دل میں اُترتے حرف سے

یوں تو ہر دَور مہکتی ہوئی نیند یں لایا

شانِ خدا بھی آپ ‘ محبوبِ خدا بھی آپ ہیں

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے ‘یہ شیدا تیرا

خُلد مری ‘ صرف اُس کی تمنا

دل کے حرا میں ‘ اپنے خدا سے

رَاہ گُم کردہ مسافر کا نگہبان تُو ہے

رُوح و بد ن میں ‘ قول و عمل میں ‘ کتنے جمیل ہیں آپ

قطرہ مانگے جو کوئی

علاجِ گردشِ لیل و نہار تُو نے کیا

میں نے مانا کہ وہ میرا ہے تو

عالم کی ابتداء بھی ہے تُو

مجھ کو تو اَپنی جاں سے بھی

مری حیات کا گر تجھ سے انتساب نہیں

میں ! کہ بے وقعت و بے مایہ ہوں

کتنا سادہ بھی ہے ‘ سچا بھی ہے

اِمتیازات مِٹانے کے لیے آپؐ آئے

مرے حضور ؐ! سلام و درُود کے ہمراہ

پابند ہوں میں شافعِ محشر کی رضا کا

ہے اُن کے حُسن ِ مساوات کی نظیر کہاں

یہ حکایت ہے کوئی ‘ اور نہ کوئی افسانہ

کافر کو بھی شعورِ وجودِ خدا دیا