رَاہ گُم کردہ مسافر کا نگہبان تُو ہے

رَاہ گُم کردہ مسافر کا نگہبان تُو ہے

اُفقِ باں پہ مثالِ مہِ تاباں تُو ہے


تُو جو میرا ہے تو میں بے سروساماں ہی بھلا

لِلِّٰہ الحمد ‘ کہ میرا سروساماں تُو ہے


مجھ کو کیا علم کہ کس طرح بدلتی ہیں رُتیں

جب مرے دشتِ خزاں پر بھی گُل اَفشاں تُو ہے


اُس خدا سے مجھے کیسے ہو مجالِ اِنکار

جس کے شہ پارہء تخلیق کا عنواں تُو ہے


اَپنے ہر عزم کی تکمیل پہ ایماں ہے مرا

پَسِ ہر عزم اگر سلسلہ جنباں تُو ہے


تیرے دم سے ہمیں عرفانِ خداوند ملا

نوعِ انساں پہ خدا وند کا اِحساں تُو ہے


یہ بتانے کو ‘ کہ با وزن ہے انسان کی ذات

دستِ یزداں نے جو بخشی ہے ‘ وہ میزاں تُو ہے


خاک میں آج بھی ہے گونج ‘ ترے قدموں کی

اَور اَفلاک کی وسعت میں خَراماں تُو ہے


تُو نے فاقہ بھی کِیا ‘ اَپنا گریباں بھی سِیا

اور پھر ذَاتِ الٰہی کا بھی مہماں تُو ہے


تیرا کردار ہے اَحکامِ خدا کی تائید

چلتا پھرتا ‘ نظر آتا ہوا قرآں تُو ہے


رنگ کی قید ‘ نہ قدغن کوئی نسلوں کی یہاں

جس کے دَر سب پہ کھلے ہیں وہ دَبستاں تُو ہے


میرے نقاد کو شاید ابھی معلوم نہیں

میرا اِیماں ہے مکمل ‘ مرا اِیماں تُو ہے

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

ہو گی کس سے بیاں عظمتِ مصطفی

کتابِ زیست کا عنواں محؐمّدِ عربی

آہ! رَمضان اب جا رہا ہے

اِک نعت لکھی ہے ہم نے بھی

آخر نگہ میں گُنبدِ اَخضَر بھی آئے گا

منکر ختم نبوت! غرق ہو

بھینی سُہانی صبح میں ٹھنڈک جِگر کی ہے

دنیا ہے ایک دشت تو گلزار آپ ہیں

یاشَہَنشاہِ اُمَم! چشمِ کرم

معصومیت کا ہالا بچپن مرے نبیؐ کا