آخر نگہ میں گُنبدِ اَخضَر بھی آئے گا

آخر نگہ میں گُنبدِ اَخضَر بھی آئے گا

آنکھوں میں کوئے نور کا منظر بھی آئے گا


ساقی مرا کریم ہے ، محشر میں حوض پر

ہاتھوں میں اپنے ساغرِ کوثر بھی آئے گا


ہم سے گُناہ گار ، چُھڑانے کے واسطے

معلوم ہے کہ شافعِ محشر ﷺ بھی آئے گا


چشمِ کرم حضور ﷺ ! کہ رستہ یہ پا سکے

بُھولا ہوا ہے ، شام کو یہ گھر بھی آئے گا


بیتِ حرم میں جا نہیں سکتے ہیں مومنین

کس کو خبر تھی وقت یہ بدتر بھی آئے گا


جاری رہے گا آپ ﷺ کی مدحت کا سلسلہ

ہر دور میں حضور ﷺ ! سُخن ور بھی آئے گا


آہ و فغاں غُلام کی سُن کر وہ ایک دن

دیدار دینے خواب میں دلبر بھی آئے گا


ظُلم و ستم کی قوتِ خیبر کو توڑنے

ہر اک زماں میں پنجۂ حیدرؓ بھی آئے گا


صدقہ نبی ﷺ کی آل کا ، اُمید ہے ، ضرور

اُمّت میں اتّحاد کا جوہر بھی آئے گا


ہوگا اُنہی کا اُمّتی ، محشر میں سرخرو

ہاں اس کے دائیں ہاتھ میں دفتر بھی آئے گا


ترسا ہوں جس کے واسطے میں عمر بھر جلیل

آخر مرے نصیب میں وہ در بھی آئے گا

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- مشکِ مدحت

دیگر کلام

’وَالضُحٰی پر گُفتگُو ہونے لگی

جیتا ہوں مرے آقا

رخ سے اب تو نقاب اٹھا دیجئے

مہر و مہ نے میرے آقا

یہ مانا کہ سب کچھ خُدا سے ملا ہے

ہوئی ہے خِلقتِ انسان بندگی کے لئے

بھرے ہیں گھاؤ مرے جب

گر شب و روز ترا ذکرِ سراپا کرنا

الفتوں کا دائرہ ہے اور میں

جن کی نعتِ نبی زندگی ہو گئی