جیتا ہوں مرے آقا ! فُرقت کے عذابوں میں
ہو جائے وصال آخر اِک بار تو خوابوں میں
طیبہ سے ہَوا شاید اِس بار نہیں آئی
’’خُوشبو نہ رہی باقی اِمسال گُلابوں میں‘‘
توصیف خدا جن کی قرآن میں کرتا ہے
آتی ہے کہاں اُن کی توصیف حسابوں میں
یہ عُمر شہا ! میری حسرت میں ہی بِیتی ہے
دیدار کرا دیجے اِک بار تو خوابوں میں
آمد کا تری مژدہ دیتے ہیں رسول، آقا !
ہے ذکر ترا شاہا ! اُن کی بھی کتابوں میں
ہوتا جو عیاں سارا ، پھر طُور کئی جلتے
جو حُسن ترا شاہا ! رہتا ہے نقابوں میں
دیکھا ہے جسے برسوں جبریل امیں نے بھی
تھے آپﷺ وہی تارا، رحمت کے حجابوں میں
ترے عشق کی مستی نے سرشار کیا جیسا
وہ کیف کہاں ہوگا سرکار ! شرابوں میں
وہ آبِ وضو تیرا ہاتھوں پہ اُٹھا لینا
یہ بات کہاں آقاﷺ ! ملتی ہے نصابوں میں
گو عُمر خطیبوں کی توصیف میں گزری ہے
پر کوئی نہ کر پایا انصاف خطابوں میں
بس یہ ہی حقیقت ہے،ہیں بعدِ خُدا ، آقا ﷺ
کیوں ٹھوکریں کھاتے ہو تُم یار ،سرابوں میں
لِلّٰہ غُلاموں کی سرکار ﷺ ! خبر لیجے
کشمیر کی جنت ہے محصور قصابوں میں
بے مایہ ہیں یہ لیکن جذبوں میں حرارت ہے
ہر آن قدم اِن کے رہتے ہیں رکابوں میں
ہے بُھول تِری دُشمن ! سمجھا یہ ممولے ہیں
للکار ہے شیروں کی ، پرواز عُقابوں میں
ہم نے تو جلیل اُن سا کوئی بھی نہیں دیکھا
دنیا میں نہ عقبیٰ میں مصحف نہ کتابوں میں
شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل
کتاب کا نام :- مشکِ مدحت