جو دیکھیں گے اُن کی شفاعت کا منظر

جو دیکھیں گے اُن کی شفاعت کا منظر

دلوں میں عجب ہوگا راحت کا منظر


شہِ دو جہاں کا یہ ہے فیضِ رحمت

’’جدھر دیکھئے ان کی رحمت کا منظر‘‘


قیام اُن کا ایسا کہ پاؤں ہیں سوجے

ذرا دیکھیے تو عبادت کا منظر


اشارہ کریں تو شجر چل کے آئیں

یہ اشجار کی ہے اِرادت کا منظر


وہ آبِ وضو اُن کا ہاتھوں پہ لیتے

غُلاموں کی تھا یہ عقیدت کا منظر


کسی آنکھ نے ایسا منظر نہ دیکھا

کہ اقصٰی میں تھا جو امامت کا منظر


وہ جن کے نواسے ہیں سردارِ جنت

تو کیا ہوگا اُن کی سیادت کا منظر


جلیل اُن کے در سے جو رخصت ہوا تھا

نہیں بُھول پاتا قیامت کا منظر

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- مشکِ مدحت

دیگر کلام

ہو سامنے روضے کی جالی وہ دن وہ مہینہ آجائے

ہواؤ! سرورِ عالم کے در کی بات کرو

سرکارِ دو عالم کے دیکھو ہر سمت نظارے ہوتے ہیں

حضورؐ آپؐ نے ذروں کو ماہتاب کیا

مِرے نبؐی میری زندگی ہیں

مرتبہ یہ ہے خیر الانام آپؐ کا

منانا جشنِ میلادُالنبی ہرگز نہ چھوڑیں گے

کرے چارہ سازی زِیارت کسی کی

پُوچھتے مُجھ سے تُم ہو کیا صاحب

مجھ غم زدہ پہ جود و کرم کر دیئے گئے