ہواؤ! سرورِ عالم کے در کی بات کرو

ہواؤ! سرورِ عالم کے در کی بات کرو

گھٹاؤ! طیبہ کے شام و سحر کی بات کرو


سناؤ مجھ کو نہ سیرِ جہاں کے افسانے

مدینے پاک کے پیارے سفر کی بات کرو


غمِ فراقِ نبیؐ میں جو با وضو ہی رہے

خوشا نصیب اسی چشمِ تر کی بات کرو


ہٹا دو سر سے مرے دوستو طبیبوں کو

مدینے والے مرے چارہ گر کی بات کرو


وہ جن کے دم سے بہارِ حیات قائم ہے

نبیؐ کے باغ کے برگ و ثمر کی بات کرو


ظہوریؔ دیکھ کے آیا ہوں ذرے بطحٰی کے

نہ میرے سامنے شمس و قمر کی بات کرو

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- نوائے ظہوری

دیگر کلام

جہاں دل میں رنج و الم دیکھتے ہیں

زباں پر جوں ہی آیا نامِ مُحمَّد

آبلے ہوں پاؤں میں آب آبدیدہ ہو

تاجدارِ حرم اے شہنشاہِ دِیں

ہر ویلے عرضاں کردا ہاں سرکار مدینہ ویکھ لواں

شاہِ خوباں کی جھلک مانگنے والی آنکھیں

خُون پانی ہو، یہ انداز مگر، پیدا کر

مشقِ سخن کی رفعتِ گفتار کے سبب

ہم سوئے حشر چلیں گے شہؐ ابرار کے ساتھ

جو ہو سر کو رَسائی اُن کے دَر تک