خُون پانی ہو، یہ انداز مگر، پیدا کر
صدفِ دل میں طرح دار گُہَر پیدا کر
شوقِ دیدار میں کچھ حُسنِ اثر پیدا کر
خود سِمٹ آئے تجلّی ، وہ نظر پیدا کر
مانگ کر مہرِ رسالتؐ سے ضیا کی خیرات
اپنے ظلمت کدۂ دل میں سحر پیدا کر
بے خودی، عشق، وفا سوزِ طلب، ذوقِ نیاز
راہِ طیبہ کے لیے زادِ سفر پیدا کر
دُور، نزدیک کوئی چیز نہیں اُن کے لیے
اک ذرا اپنی صداؤں میں اثر پیدا کر
ہجرِ آقاؐ میں بہیں اشک، مگر حد میں رہیں
کچھ نہ کچھ ضبط بھی اے دیدۂ تر! پیدا کر
کہہ رہی ہے یہ مسلماں سے محمدؐ کی نماز
جَبہہ سائی کے جو لائق ہو، وہ سَر پیدا کر
کہتے ہیں، ٹوٹے ہُوئے دل میں خدا رہتا ہے
تُو بھی اِس کعبے کی دیوار میں در پیدا کر
اُن کا جلوہ تو ہر اک شے سے ہے ظاہر باہر
آنکھ اللہ نے دی ہے، تو نظر پیدا کر
پُرسشِ حال کو تشریف وہ لائیں گے ضرور
سوزِ دل، ذوقِ وفا، دردِ جگر پیدا کر
دیکھ اللہ کا گھر شوق سے پھر جا کے نصیرؔ
پہلے دل میں کسی انسان کے گھر پیدا کر
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست