گر شب و روز ترا ذکرِ سراپا کرنا

گر شب و روز ترا ذکرِ سراپا کرنا

غیر ممکن ہے مراتب کا احاطہ کرنا


تُو بھی ہے غارِ حرا کتنے نصیبوں والی

تیری خلوت میں وہ سرکار کا بیٹھا کرنا


خاکِ کربل ہے تجھے یاد وہ منظر کہ نہیں

تجھ پہ پیشانیٔ شبّیر کا سجدہ کرنا


شہرِ طائف نے بھی دیکھا ہے ترا خُلقِ حَسن

سنگباروں کے لئے شاہا دعا کا کرنا


بے سہاروں کا سہارا ! تُو سہارا دے کر

روزِ محشر بھی رفو قلبِ شکستہ کرنا


ہم سے عاصی بھی جلیل آج مدینے پہنچے

’’کہنے والے اِسے کہتے ہیں خدا کا کرنا‘‘

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- مشکِ مدحت

دیگر کلام

میرے کملی والے کی شان ہی نرالی ہے

پتا خدا کا خدا کے نبیؐ سے ملتا ہے

یوں تو اللہ نے کیا کیا نہ سنوارا ہوگا

حشر کے دن واجب ٹھہرے گی کس کی شفاعت ان کی ان کی

جو فردوس تصور ہیں وہ منظر یاد آتے ہیں

در تے جو آن کے ڈگدا اے اُٹھا لیندے نے

سرورِ کونینؐ کا دریائے رحمت واہ واہ

ہم پر کرم فرماتے رہنا

مری خوش نصیبی کی یہ انتہا ہے

ہو جاتی ہے مدحت بھی شہِ کون و مکاں کی