میں تیرا فن ہوں

میں تیرا فن ہوں ۔۔ یہی فن ترا غرور ہُوا

تری انا کا مری ذات سے ظہور ہُوا


ترے وجود کو وحدت ملی تو مجھ سے ملی

تو صرف ایک ہُوا ‘ جب میں تجھ سے دُور ہُوا


بس ایک حادثہء کن سے یہ جدائی ہوئی

میں ریگِ دشت ہُوا ‘ تو فرازِ طُور ہُوا


ترے جمال کا جو ہر مرا رقیب نہ ہو

میں تیری سمت جب آیا تو چُور چُور ہُوا


عجیب طرح کی اِک ضد مرے خمیر میں ہے

کہ جب بھی تیرگی اُمڈی میں نُور نُور ہُوا


یہ اور بات ۔۔ رہا انتظار صدیوں تک

مگر جو سوچ لیا میں نے ‘ وہ ضرور ہُوا

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

کرم کے بادل برس رہے ہیں

ترے در توں جدا ہوواں کدی نہ یا رسول اللہ

بے عمل ہوں مرے پاس کچھ بھی نہیں

مصطفیٰ، شانِ قُدرت پہ لاکھوں سلام

زلف دیکھی ہے کہ نظروں نے گھٹا دیکھی ہے

شبِ سیاہ میں پُرنور ماہِ تمام آیا

تیرا مجرم آج حاضر ہو گیا دربار میں

دل میں ہے خیال رخ نیکوئے محمدﷺ

حالِ دل کس کو سنائیں