یوں تو ہر دَور مہکتی ہوئی نیند یں لایا

یوں تو ہر دَور مہکتی ہوئی نیند یں لایا

تیرا پیغام مگر خواب نہ بننے پایا


تو جب آیا تو مٹی روح و بدن کی تفریق

تو نے انساں کے خیالوں میں لہو دوڑایا


جن کو دھندلا گئے صدیوں کی غریبی کے غبار

اُن خد و خا ل کو سونے کی طرح چمکایا


سمٹ آیا ترے اک حرفِ صداقت میں وہ را ز

فلسفوں نے جسے تا حدِّ گماں اُلجھایا


راحتِ جاں ! ترے خورشیدِ محبت کا طلوع

دھوپ کے روپ میں ہے ابرِ کرم کا سایا


قصرِ مرمر سے ‘ شہنشاہ نے ‘ از راہِ غرور

تیری کُٹیا کو جو دیکھا تو بہت شرمایا


کتنا احسان ہے انسان پہ تیر ا ‘ کہ اُسے

اپنی گُفتار کو ‘ کِردار بنانا آیا

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

دیگر کلام

جابرؓ کہ تھے حضورﷺ کے اِک عبدِ با وفا

اپنے گھر میں ایک دن داخل

ہو کرم کی نظر اس گنہگار پر

کرتے ہیں تمنّائیں حْب دار مدینے کی

دل میں اُترتے حرف سے

شانِ خدا بھی آپ ‘ محبوبِ خدا بھی آپ ہیں

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے ‘یہ شیدا تیرا

خُلد مری ‘ صرف اُس کی تمنا

دل کے حرا میں ‘ اپنے خدا سے

رَاہ گُم کردہ مسافر کا نگہبان تُو ہے